جمعه,  17 مئی 2024ء
آرمی چیف کا کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی ,سفارتی حمایت جاری رکھنےکاعزم

تحریر:اصغر علی مبارک

آرمی چیف نے کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی ,سفارتی حمایت جاری رکھنےکے عزم کااظہارکیا ہے مقبوضہ کشمیر پر بھارت نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، کشمیر میں بھارتی جارحیت پر دنیا کی خاموشی آزادی کی آواز کو دبا نہیں سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھیں گے، ہمیشہ یاد رکھیں کہ حق طاقت ہے جبکہ باطل کبھی طاقتور نہیں ہوسکتا۔ واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت 82ویں فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں کشمیریوں اور فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا فارمیشن کمانڈرز کانفرنس اعادہ کیا تھا کہ پاکستان کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔ہ مسئلہ کشمیر کا دائمی حل صرف یو این قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حقِ خودارادیت دینے میں ہے۔فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں اس بات کا بھی اعادہ کیا گیا کہ پاکستان فلسطینی عوام کی مکمل سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا ہے۔

فورم نے مسلح افواج کے افسران،جوانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خراج تحسین پیش کیا جبکہ پاکستانی شہریوں سمیت شہداء کی عظیم قربانیوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا تھافورم نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کشمیریوں پر جاری بھارتی جبر و استبداد پر تشویش کا اظہار اور بھارتی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کی مذمت کی تھی ۔

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا کہنا تھا کہ غزہ جنگ اس بات کی تازہ ترین مثال ہے کہ جنگیں کیا کیا مصائب سامنے لاسکتی ہیں، غزہ میں بوڑھوں، خواتین اور بچوں کا اندھا دھند قتل اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں تشدد بڑھ رہا ہے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ حق طاقت ہے جبکہ باطل کبھی طاقتور نہیں ہوسکتا، راشد منہاس، سرفراز رفیقی اور ایم ایم عالم جیسے بنیں، جنہوں نے وطن عزیز کے وقار کے تحفظ کے لیے اپنی خدمات اور زندگیاں پیش کیں۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ آپ کو جو ذمہ داری سونپی جا رہی ہے اس کے لیے پُرعزم رہیں اور ریاست پاکستان کے ساتھ وفادار رہیں۔آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے پاکستان ایئر فورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہماری امیدوں کا مرکز، آسمانوں کے محافظ اور علاقائی یکجہتی کے ضامن ہیں، آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ کردار، ہمت اور قابلیت کی خوبیوں سے مُزیّن زندگی گزاریں گے۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ہم اپنی آئینی حدود کو بخوبی جانتے ہیں اور دوسروں سے بھی آئین کی پاسداری کو مقدم رکھنے کی توقع رکھتے ہیں۔ آپ کا طرز عمل نہ صرف آپ کی ذاتی اخلاقیات بلکہ قابل احترام ادارے کے لیے بھی غیر معمولی ہوگا، آپ مادر وطن کے دفاع، عزت و وقار کے لیے قربانی دینے سے کبھی دریغ نہیں کریں گے۔ آرمی چیف نے کہا کہ عسکری قیادت آپ سے توقع کرتی ہے کہ آپ ہمارے ملک کے بہترین جذبے، ادارے کی پیشہ ورانہ مہارت اور بہادری کی لازوال روایت کو ہمیشہ قائم رکھیں گے۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 میں واضح طور پر آزادی اظہار اور اظہار رائے کی حدود متعین کی گئی ہیں، جو لوگ آئین میں دی گئی آزادی رائے پر عائد کی گئی واضح قیود کی برملا پامالی کرتے ہیں وہ دوسروں پر انگلیاں نہیں اٹھا سکتے۔

آرمی چیف نےکہا کہ ہم اپنی آئینی حدود کو بخوبی جانتے ہیں اور دوسروں سے بھی آئین کی پاسداری کو مقدم رکھنے کی توقع رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلحے کی دوڑ سے ہمارے خطے میں طاقت کا توازن بھی بگڑنے کا امکان ہے، مصنوعی ذہانت، روبوٹکس اور کوانٹم کمپیوٹنگ سمیت مخصوص ٹیکنالوجیز فضائی طاقت کے استعمال کو تبدیل کر نے کے ساتھ ساتھ اس کے دائرہ کار کو وسعت دے رہی ہیں۔ آرمی چیف نے کہا کہ ایک مضبوط فضائیہ کے بغیر ملک کسی بھی جارح کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، پاک فضائیہ ہمیشہ قوم کی توقعات پر پورا اتری ہے، پاک فضائیہ نے بے مثال بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ہر طرح کی مشکلات میں فضائی حدود کی نگرانی کی جس کی بڑی مثال فروری 2019 ہم سب کے سامنے ہے۔ملک کی عسکری قیادت نے فلسطین اور کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھنے کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان ، فلسطین کے مسئلے پر دو ریاستی حل، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے دائمی حل کی حمایت کرتا ہے ، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دشمن قوتوں کے اشارے پر کام کرنے والے تمام دہشت گردوں،ان کے سہولت کاروں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے عناصر کے خلاف ریاست مکمل طاقت کے ساتھ نمٹے گی۔کشمیری عوام کو نہ تو ان کی مرضی کے مطابق جینے کا حق دیا جا رہا ہے اور نہ ہی وہ تمام بنیادی انسانی حقوق مہیا کیے جا رہے ہیں اعداد و شمار کے مطابق 5 اگست 2019 کے بعد سے اب تک بھارتی افواج کی جانب سے 621 کشمیریوں کو مبینہ طور پر ہلاک کیا گیاجن میں 98 ہلاکتیں ایسی بھی تھیں جو ماورائے عدالت تھیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 1989 سے تاحال 96,000 بے گناہ کشمیری آزادی کی خواہش دل میں بسا کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں جبکہ بھارتی افواج کی جانب سے 1,62000 کشمیریوں کو گرفتار کر کے ان پربہیمانہ تشدد کیا گیا۔ پیلٹ گن سے زخمی ہونے والوں کی تعداد 25,000 کے قریب ہے جبکہ اس عرصے کے دوران 23,000 خواتین بیوہ ہوئیں ۔ 1,08000 بچے یتیم ہوگئے اور 1,10,000 گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ۔ ان واقعات میں تیزی کشمیر کی خصوصی حیثیت آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد دیکھنے میں آئی ۔

یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ بھارت کشمیر پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے اس کی جغرافیائی حدود میں ردو بدل کر رہا ہے تاکہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا کر اس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی حاکمیت قائم کر سکے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں انسانی حقوق کو اس طرح پامال کیا جائے تو بنیادی انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں، گروہ اور مختلف فورمز اس پر صدائے احتجاج ضرور بلند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں جاری جارحیت کی روک تھام کے حوالے سے بھی کافی ردعمل دیکھنے کو ملا۔ معروف امریکی سیاستدان ٹیری میزا نے دنیا سےاپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھارت کو کشمیر میں جاری انسانیت سوز مظالم سے روکنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرے تاکہ اس مسئلے کو فوری طور پر حل کیا جا سکے۔انہوں نے ایک ایسا آزاد کمیشن بنانے کا مطالبہ بھی کیا جو بناکسی دبائو کشمیر میں جاری مظالم کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے۔ٹیری میزا کا اس طرح کشمیریوں کے ساتھ اظہار ہمدردی لائق تحسین ہے ۔

مسئلہ کشمیر کے فوری اور تصفیہ طلب حل کی طرف ایک اور پیش قدمی 18 نومبر 2022 کو ہوئی جس میں بنیادی انسانی حقوق کی چھ عالمی تنظیموں نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ بلا تاخیر اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ان سفارشات پر عمل کرے جو اقوام متحدہ میں پیش کر چکی ہے۔ بھارت پر دبائو ڈالنے والی ان تنظیموں میں ایمنسٹی انٹر نیشنل ، سی ایس ڈبلیو،انٹر نیشنل فیڈریشن برائے انسانی حقوق، عالمی تنظیم برائے تشدد،عالمی دلیت یکجہتی نیٹ ورک اور ہیومن رائٹس واچ شامل ہیں۔ کشمیری عوام پر تشدد اور ظلم وستم کے پہاڑ توڑنے کے لیے بھارت نے بہت سارے قوانین وضع کر رکھے ہیں جن میں پبلک سیفٹی ایکٹ اور آرمڈ فورسس سپیشل پاور ایکٹ جیسے سخت قوانین شامل ہیں۔ ان قوانین کا تذکرہ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں بھی ملتا ہے جو واضح کرتی ہے کہ بھارت ان قوانین کی آڑ میں معصوم کشمیریوں کے بنیادی حقوق کو پامال کر رہا ہے۔

مسئلہ کشمیر کے تصفیے کو لے کر بھارتی اعلیٰ سول قیادت ہمیشہ جھوٹے دعوے کرتی رہی ہے۔ مہاراجہ ہری سنگھ سے منسوب بے بنیادمعاہدے کو ثبوت بنا کر وہ دنیا کویہ باور کرانا چاہتی ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔جھوٹ پر مبنی ایسے کئی دعوے خود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے متعدد خطابات میں کر چکے ہیں۔ مسلمان ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ کئی مرتبہ عالمی برادری سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ بھارتی قیادت پر زور ڈالے کہ و ہ بھارت میں جاری مسلمانوں اور اقلیتوں پر ہونے والے مظالم ، اسلاموفوبیا اور ہندوؤں کی مسلمانوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی نفرت کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ او آئی سی نے اپنی سفارشات میں کئی مرتبہ شدید ردعمل کا اظہار بھی کیا ہے مگر بھارتی قیادت ان تمام سفارشات کو پس پشت ڈال کر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مذاکرات کرنے کو تیار نہیں ہے جس کا واضح طور پر نتیجہ یہ نکلے گا کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا جس سے خطے میں بد امنی بڑھے گی ۔ بھارت چاہتا ہے کہ وہ تاریخی حقائق کو مسخ کر تے ہوئے عالمی برادری کا اعتماد حاصل کرے جو کہ ایک طرف تو کشمیریوں کے ساتھ نا انصافی ہو گی جبکہ دوسرے طرف اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کی بھی خلاف ورزی تصور ہو گی جو کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتی ہیں ۔ مقبوضہ وادی میں ایسے پروگراموں کا انعقاد، وہاں مختلف نوعیت کے پراجیکٹس لانچ کرنا،بھارتی سیاسی قیادت کے دورے،ہندوؤں کی ڈومیسائل کے اجراء کے ذریعے بہت بڑی تعداد میں کشمیر میں آباد کاری جیسے تمام اقدامات کسی طور پر بھی کشمیریوں کے حق خودارادیت کو دبا نہیں سکتے۔ پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کی ہے اور ہر فورم پر آواز اٹھائی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ان کی خواہش کے مطابق حل کیا جائے مسئلہ کشمیر کے تصفیہ طلب حل تک ان کی سیاسی ،قانونی، اخلاقی اور سفارتی مدد جاری رکھے گی۔

بھارت کو چاہئے کہ وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے وہاں جاری مظالم کو فوری طور پر بند کرے یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہےکہ 6مارچ کو کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر شاخ نے پاک فوج کی طرف سے کشمیریوں کی بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد کی مکمل سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھنے کے پاکستان کے عزم کے اعادے کا خیرمقدم کیا ہے ۔ جنرل ہیڈ کوارٹرزراولپنڈی میں بری فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس کے دوران پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ اجلاس میں مقبوضہ کشمیرمیں جاری بھارتی ظلم و تشدد پر بھی سخت تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ نے بیان میں کشمیر کاز کے لیے پاکستان کی حکومت ، عوام اور مسلح افواج کی غیر متزلزل حمایت اور کشمیری عوام کے حق خودارادیت کیلئے ان کے عزم کو سراہا تھا۔کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا کہ آرمی چیف کے بیان نے بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کرنے والے کشمیر کے آزادی پسند عوام کے جذبہ حریت میں ایک نئی روح پھونک دی ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستانی مسلح افواج نے ہمیشہ کشمیر کاز کی حمایت کی ہے۔محمود ساغر نے کہاکہ کشمیری عوام حق خود ارادیت کے حصول کی اپنے منصفانہ جدوجہد آزادی کی مسلسل حمایت کرنے پر پاک فوج کے شکر گزار ہیں۔ کشمیریوں کو پختہ یقین ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں، پاکستان انہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔

کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا تھا کہ بھارت کو زمینی حقائق تسلیم اور کشمیری عوام سے کئے گئے اپنے وعدے پورے کرتے ہوئے جموں وکشمیر کے عوام کو انکا حق خودارادیت دینا چاہیے ۔ یاد رہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہے۔اپریل میں ملک بھر میں بالخصوص خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں دہشتگردوں کے حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اسی دوران کاؤنٹر ٹیرارزم ڈپارٹمنٹ سی ٹی ڈی خیبر پختونخوا نے رواں سال کے 4 ماہ کے دوران مطلوب دہشتگردوں کی فہرست جاری کردی، جس میں 11 انتہائی مطلوب دہشت گردوں کے نام اور تصاویر شامل ہیں۔ دستاویز کے مطابق لکی مروت سے 5، بنوں 4، شانگلہ 1 اور سین تنگہ جانی خیل سے ایک دہشت گرد شامل ہے، مطلوب 11 دہشت گردوں کے سروں کی قیمت 1 کروڑ 31 لاکھ روپے مقرر ہے۔ فہرست میں لکی مروت کے دہشتگرد حبیب اللّٰہ عرف سیف اللّٰہ کے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے، بنوں سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد محمد جمیل کے سر کی قیمت 30 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔ دستاویز کے مطابق لکی مروت کے محمد گل عرف ساقی کے سر کی قیمت 10 لاکھ روپے مقرر ہے، بنوں سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد زابد اللّٰہ عرف چگ کے سر کی قیمت 10 لاکھ مقرر کی گئی۔ سی ٹی ڈی نے گزشتہ سال مطلوب دہشت گردوں کی 3 فہرستیں جاری کی تھی، گزشتہ سال سی ٹی ڈی نے 294 مطلوب دہشت گردوں کی سروں کی قیمت مقرر کی تھی۔ خیبر پختونخوا سی ٹی ڈی نے اب تک 305 مطلوب دہشت گردوں کے سروں کی قیمت مقرر کی۔

حالیہ حملوں میں ملوث دہشت گردوں کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز نامی تنظیم نے سیکیورٹی سے متعلق اپنی ماہانہ رپورٹ میں اعدادوشمار جاری کیے۔ سال کے پہلے 4 مہینوں میں ملک میں دہشت گردی کے 323 حملے ہوئے جس کے نتیجے میں 324 ہلاکتیں اور 387 زخمی ہوئے۔اعداد و شمار کے مطابق اپریل کے دوران ملک میں دہشتگردی کے تقریباً 77 حملوں کی تصدیق ہوئی، ان حملوں میں 70 افراد جاں بحق ہوئے جن میں 35 عام شہری اور 31 سیکورٹی فورس کے ارکان شامل تھے، اس کے علاوہ ان واقعات کے دوران 4 دہشت گرد بھی مارے گئے۔اس دوران 67 افراد زخمی ہوئے جن میں 32 عام شہری اور 35 سیکیورٹی اہلکار تھے۔ اس کے مقابلے میں مارچ میں دہشت گردی کے 56 حملے ہوئے، جس کے نتیجے میں 77 افراد جاں بحق اور 67 زخمی ہوئے، مارچ کے مقابلے اپریل میں دہشت گردوں کے حملوں کی تعداد میں 38 فیصد اضافہ ہوا اور ہلاکتوں میں 9 فیصد کمی آئی۔ رپورٹ میں اپریل کے دوران متعدد ممکنہ حملوں کو ناکام بنانے میں ملک کی سیکیورٹی فورسز کی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی گئی، جن میں کم از کم 55 مشتبہ دہشت گردمارے گئے اور 12 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا، جن میں بشام خودکش حملے میں ملوث افراد بھی شامل ہیں۔ مارچ کے مقابلے میں دہشت گردوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں 55 فیصد اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اپریل میں ہونے والے تمام دہشت گردوں کے حملوں میں سے 73 فیصد حملے خیبرپختونخوا میں ہوئے، گزشتہ ماہ صوبے میں 56 حملے رپورٹ ہوئے تھے، ان حملوں کے نتیجے میں 43 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 26 سیکورٹی فورس کے ارکان اور 17 عام شہری شامل تھے۔

اس دوران 32 افراد زخمی ہوئے جن میں 19 سیکورٹی فورسز کے ارکان اور 13 عام شہری شامل ہیں۔ خیبرپختونخوا کے اضلاع میں قبائلی اضلاع میں زیادہ حملے اور ہلاکتیں ہوئیں، صوبے میں 31 حملے ہوئے جن کے نتیجے میں 25 افراد جاں بحق اور 10 زخمی ہوئے۔bڈیرہ اسمعٰیل خان کے جنوبی اضلاع، لکی مروت، بنوں اور ٹانک سب سے زیادہ متاثر ہوئے، ڈی آئی خان اور لکی مروت میں 7، 7، بنوں میں 6 اور ٹانک میں دہشت گردی کے 2 حملے رپورٹ ہوئے، صوبے میں مجموعی طور پر 71 فیصد حملے ہوئے۔ اس کے علاوہ پشاور میں 4 حملے رپورٹ ہوئے جب کہ سوات، صوابی، چارسدہ، شانگلہ اور بٹگرام میں ایک ایک حملہ ہوا۔ خیبرپختونخوا (سابقہ ​​فاٹا) کے قبائلی اضلاع میں کم از کم 25 حملے رپورٹ ہوئے، جس میں 18 ہلاکتیں اور 22 زخمی ہوئے، جو اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے ان میں شمالی وزیرستان میں 9، باجوڑ میں 5 اور جنوبی وزیرستان میں 4 حملے رپورٹ ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 16 حملے ہوئے، جن میں 17 عام شہری اور 4 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 21 افراد جاں بحق اور 31 افراد زخمی ہوئے، خضدار میں 3، کیچ، کوہلو اور کوئٹہ میں 2 اور چمن، ڈیرہ بگٹی، دکی، قلات، خاران، مستونگ اور نوشکی میں ایک ایک حملے رپورٹ ہوئے۔ پنجاب میں بھی دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا، مارچ میں ایک کے مقابلے اپریل میں 4 حملے رپورٹ ہوئے، جس کے نتیجے میں 3 ہلاکتیں ہوئیں، ایک حملہ سندھ میں ہوا جس کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق ہوئے۔ یہ یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں سیکیورٹی فورسز نے کامیابی سے آپریشن کرتے ہوئے فائرنگ کے تبادلے کے بعد تین دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔آئی ایس پی آر سے جاری بیان کے مطابق 2 مئی 2024 کو سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر ضلع ٹانک میں انٹیلی جنس پر مبنی مشترکہ آپریشن کیا۔

آپریشن کے دوران شدید فائرنگ کے تبادلے میں تین دہشت گرد مارے گئے جن کی شناخت دہشت گردوں کے سرغنہ عظمت عرف عظمتی، کرامت عرف حنزلہ اور ریحان کے نام سے ہوئی ہے۔ دہشت گرد علاقے میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث تھے جن میں حال میں ضلع جنوبی وزیرستان کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے اغوا کی واردات بھی شامل ہے۔ سیکیورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں واضح رہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر سیکیورٹی فورسز ملک بھر میں بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہے۔ تین دن قبل ٹانک میں ہی سیکیورٹی فورسز نے انٹیلی جنس آپریشن کے دوران 4 دہشت گردوں کو ہلاک کر کے ان کے قبضے سے اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکا خیز مواد برآمد کر لیا تھا۔ اس سے ایک روز قبل سیکیورٹی فورسز نے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کے دوران 2 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تھا۔خضدار میں 3، کیچ، کوہلو اور کوئٹہ میں 2 اور چمن، ڈیرہ بگٹی، دکی، قلات، خاران، مستونگ اور نوشکی میں ایک ایک حملے رپورٹ ہوئے۔ پنجاب میں بھی دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا، مارچ میں ایک کے مقابلے اپریل میں 4 حملے رپورٹ ہوئے، جس کے نتیجے میں 3 ہلاکتیں ہوئیں، ایک حملہ سندھ میں ہوا جس کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق ہوئے۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News