تحریر:اصغر علی مبارک
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج یوم مزدو منایا جارہا ہے،اس دن کے منانے کا مقصد محنت کشوں کو ان کے بنیادی حقوق سے متعلق شعور اجاگر کرنا ہے اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ ہے قومی ترقی میں محنت کشوں کا کرداراہمیت کا حامل ہے،ملکی ترقی میں محنت کشوں کااہم کردارہے۔ تاریخ کے مطابق یہ دن اٹھارہ سو چھیاسی میں شکاگو کے مزدوروں کے ہونے والے احتجاج کا نتیجہ ہے پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں تمام طبقات کے حقوق اور ذمہ داری متعین کی گئی ہے، اسلام مزدور اور مالک سے دیانتداری کے ساتھ کام کرنے اور کرانے کا حکم دیتا ہے۔
اِسلام نے مزدور و مالکان کے حقوق و فرائض کو بھی واضح طور پر بیان کردیا ہے اور ہر ایک کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنے فرائض کی ادائی میں ذرا برابر بھی کوتاہی نہ کریں۔ اِسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگی کہ شریعتِ مطہرہ نے صدیوں پہلے ظلم کی چکی میں پسے ہوئے مزدوروں کو اُن کا جائز حق دیا اور مالکان کو پابند کیا کہ مزدوروں کو کم تر نہ سمجھیں، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مزدور کو اُس کی مزدوری اُس کے پسینے کے خشک ہونے سے پہلے ہی ادا کردو یعنی اُس کا حقِ خدمت معاہدے کے مطابق وقت پر ادا کردیا جائے۔ یہ رسول اﷲ ﷺ کی معروف حدیثِ مبارک ہے، جو ہر شخص چاہے وہ مزدور ہو یا مالک سب کو یاد ہے۔ مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے اِس حدیث مبارک کے علاوہ ایک حدیثِ قدسی بھی بڑی معروف ہے کہ اﷲ تعالیٰ یہ ارشاد فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین لوگوں کے لیے خود مدَّعی بنوں گا، اُن میں سے ایک وہ مزدور ہوگا، جس نے اپنا کام تو پورا کرلیا لیکن اُسے اُس کی اُجرت نہیں دی گئی۔ یکم مئی یوم مزدور کے سلسلے میں حضورﷺ کا فرمان الکاسب حبیب اللہ کہ ’’محنت سے کمانے والا اللہ کادوست ہوتا ہے‘‘۔اسلام دنیاکا واحد نظام ہے جس میں مزدور کو نہ صرف تحفظ حاصل ہے بلکہ مزدور کو اعزاز واکرام سے بھی نوازا ہے ۔14 سوسال قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا مزدور کا حق پسینہ خشک ہونے سے قبل اداکردو۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالتے ہی فرمایا میری تنخواہ ایک مزدور کی تنخواہ کے برابرہوعرض کیا گزارہ نہیں ہوگا فرمایا اگر میرا گزارہ نہیں ہوگا تو مزدور کس طرح گزارہ کرتا ہے پھر مزدور کی تنخواہ زیادہ کردو۔
یوم مزدورکی ابتداء 1886 ء سے امریکہ کے شہر شکاگو سے ہوئی ۔ اس دن دنیا کے بہت سے ممالک میں شکاگو میں ہلاک ہونے والے مزدوروں کو خراج تحسین پیش کرنے کےلیے مزدوروں کی فلاح و بہبود اورحقوق کے نام پر تعطیل ہوتی ھے مزدوروں کے نام پر سیمینار اور جلسے بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔ قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ اس دن کی اہمیت اور حقوق سے خود مزدور لاعلم ہے۔ وہ اس کے دن بھی روز مرّہ کی طرح صبح ہوتے ہی اپنے گھر سے مزدوری کے لئے نکل جاتا ہے اور شام گئے تھکا، ماندہ گھر لوٹتا ہے کیونکہ اگر مزدور چھٹی کرے گا تو کھائے گا کیا,یوم مزدور کے ضمن میں ابتداء دراصل شکاگوامریکہ سے ہو ئی ہے۔ جہاں پہلی بار 1886ء میں مزدوروں نے باضابطہ طور پر کام کے اوقات کو آٹھ گھنٹے کرنے اور ہفتہ میں ایک دن کی تعطیل کئے جانے کے مطالبات کیے تھے۔ مطالبات منظور نہ ہونے پر مزدوروں نے پہلی بار بطور احتجاج ہڑتال اور مظاہرہ کیا جس پر پولیس نے فائرنگ کر دی اور اس فائرنگ میں کئی مزدور ہلاک اور زخمی ہو گئے۔اس کے بعد 1889 ء میں پیرس میں عالمی جنرل اسمبلی کی دوسری میٹنگ میں ایک قرارداد منظور کی گئی کہ اس سانحہ کی تاریخ یکم مئی کو عالمی سطح پر یوم مزدور کے طور پر منایا جائے۔
اس قرارداد کے منظور ہوتے ہی اسی وقت 80 ممالک نے ’’یوم مئی‘‘ یا’’ یوم مزدور ‘‘کے موقع پر قومی تعطیل کا بھی اعلان کر دیا اس طرح ’’یوم مزدور‘‘ معرض وجود میں آیا۔ یہ حقیقت ہے کہ مزدوروں کے حقوق اور ان کی بہتر طرز زندگی کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو امریکہ ، برطانیہ اور یورپ میں مزدور وں کے حالات دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہتر ہیں۔ برطانیہ کے مزدوروں ک دیکھا ہےکہ مزدوروں کے حقوق اور بہتر طرز زندگی کے لئے جو قوانین بنائے گئے ہیں ان پر پوری طرح عمل کیا جاتا ہے۔روز مرہ زندگی میں عام مزدورجس طرح اپنی کار میں کام پر آتے ہیں وہ انداز ہمارے ملک میں بہت پڑھے لکھے لوگوں کو بھی میسر نہیں۔ علاوہ ازیں مزدوروں کے لئے کام کے دوران ان کے لئے سارے حفاظتی انتظامات ہوتے ہیں۔ انھیں کبھی کوئی حادثہ پیش آ جائے تو ان کے علاج معالجہ کی بھی بہت بہتر سہولیات موجود ہیں تیسری دنیا کے اکثر ممالک میں صبح جس حالت زار میں مزدور اپنے گھروں سے مزدوری کرنے جاتے ہیں،وہ بہت ہی ابتر ہے۔
بعض اوقات وہ بارہ بجے تک مزدوری کے اڈے پر انتظار کر کے مایوس گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ ان میں بیمار بزرگ اور کم عمر بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کم از کم ہر ’’یوم مزدور ‘‘کے موقع پر ایسے تمام ممالک میں، جہاں مزدوروں کی حالت حیوانوں سے بھی بدتر ہے، وہاں ان کی اور ان کے بال بچوں کی بہتر طرز زندگی کے لئے بہت سنجیدگی سے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین موجود ہیں لیکن عمل در آمد بالکل نہیں ہوتا۔بچے کسی بھی ملک کا سرمایہ ہیں، مستقبل کے معمار اورمستقبل کی امید ہیں۔بچے کائنات کا حسن ہیں لیکن آج ان معصوم بچوں کے ناتواں کاندھوں پر مزدوری کا بوجھ ہے، بچوں کے بدن پر لباس نہیں، پاؤں میں جوتی نہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو صرف عبادات کا ہی مجموعہ نہیں بلکہ بیماروں، یتیموں، ہمسائیوں، مسافروں، طالب علموں بلکہ جانوروں کے حقوق کی ادائیگی کا بھی حکم بھی دیتا ہے۔یوم مئی دراصل ایسی قوتوں کے خلاف نفرت کے جذبات کے اظہار کا موقع ہے جنہوں نے ان ابدی تعلیمات سے منہ موڑ کر مزدوروں پر ظلم کیا اور کر رہے ہیں۔ یوم مئی موقع ہے۔
ان طاقتوں کے خلاف جذبات اور نفرت کے اظہار کا جنہوں نے مزدوروں کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے قبل ادا کرنے کے اصول کو پامال کیا اور جو آج بھی ایسے سنہری اصولوں کی پامالی کر رہے ہیں, صنعتی انقلاب کے بعد مزدور کی زندگی بہت مشکل تھی اور ان سے ایک دن میں 16,16 گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔ ڈیوٹی کے دوران اگر کوئی مزدور زخمی ہو جاتا یا مر جاتا تو اس کے تمام اخراجات خود مزدورکے ذمہ ہوتے۔ ایسا کوئی قانون نہ تھا کہ مزدور کے زخمی ہونے کی صور ت میں اس کا علاج کروایا جاتا، مزدور کی ملازمت کا فیصلہ مالک کی صوابدید پرتھا۔ وہ جس کو چاہتا ملازمت پر رکھتا جس کو چاہتا ملازمت سے ہٹا دیتا۔ ہفتے میں ساتوں دن ہی کام کرنا پڑتا چھٹی کا کوئی تصور ہی نہ تھا ان تمام مسائل کے حل کے لئے امریکہ اور یورپ میں مزدوروں نے مختلف تحریکیں چلائیں۔ سن 1884 ء میں فیڈریشن آف آرگنائز ڈ اینڈ لیبر یونینز نے اپنا ایک اجلاس منعقد کیا جس میں انہوں نے ایک قرارداد پیش کی۔ قراداد میں کچھ مطالبے رکھے گئے۔ جن میں سب سے اہم مطالبہ تھا کہ مزدوروں کے اوقات کاروں کو 16گھنٹو ں سے کم کرکے 8گھنٹے کیا جائے۔ مزدوروں کا کہنا تھا کہ آٹھ گھنٹے کام کے لئے آٹھ گھنٹے آرام کے لئے اور آٹھ گھنٹے ہماری مرضی کے۔
یہ مطالبہ یکم مئی سے لاگوکرنے کی تجویز پیش کی گئی لیکن اس مطالبے کوتمام قانونی راستوں سے منوانے کی کوشش ناکام ہونے کی صورت میں یکم مئی کو ہی ہڑتال کا علان کیا گیا اور جب تک مطالبا ت نہ مانے جاتے یہ تحریک جاری رہتی۔ 16,16گھنٹے کام کرنے والے مزدوروں میں آٹھ گھنٹے کام کا نعرہ بہت مقبول ہوا اسی وجہ سے اپریل 1886تک اڑھائی لاکھ سے زیادہ مزدور اس ہڑتال میں شامل ہونے کے لئے تیار ہو گئے اس تحریک کا آغاز امریکہ کے شہر شکاگو سے ہوا۔ ہڑتال سے نمٹنے کے لئے جدید اسلحہ سے لیس پولیس کی تعدا د شہر میں بڑھا دی گئی۔ یہ اسلحہ اور دیگر سامان پولیس کو مقامی سرمایہ داروں نے فراہم کیا تھا۔ تحریک کا آغاز یکم مئی سے ہو گیا پہلے دن ہڑتال بہت کامیاب رہی دوسرے دن یعنی 2مئی کو بھی ہڑتا ل بہت کامیاب اور پُر امن رہی لیکن تیسرے دن ایک فیکٹری کے اندر پولیس نے پُر امن اور نہتے مزدوروں پر فائرنگ کر دی جس کی وجہ سے چار مزدور ہلاک اور بہت سے زخمی ہو گئے۔ اس واقعے کے خلاف تحر یک کے منتظمین نے اگلے ہی روز چار مئی کو احتجاجی جلسے کا اعلان کیا۔ پُر امن جلسہ جاری تھا لیکن آخری مقرر کے خطاب کے دوران پولیس نے اچانک فائرنگ شروع کر کے بہت سے مزدور ہلاک و زخمی کر دئیے پولیس نے یہ الزام لگایا کہ مظاہرین میں سے ان پر گرینیڈ سے حملہ کیا گیا جس کی وجہ سے ایک پولیس اہلکار ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے ہیں اس حملے کو بہانہ بنا کر پولیس نے گھر گھر چھاپے مارے اور بائیں بازوں اور مزدور راہنماؤں کو گرفتا ر کر لیا۔ ایک جعلی مقدمے میں 8مزدور راہنماؤں کو سزائے موت دے دی گئی۔ لبرٹ یارس، آگسٹ سپائز ،ایڈولف فشر اور جارج اینجل کو 11نومبر 1887 کو پھانسی دے دی گئی لوئس لنگ نے جیل میں خود کشی کر لی اور باقی تینوں کو 1893میں معافی دے کر رہاکر دیا گیا۔ مئی کی اس مزدور تحریک نے آنے والے دنوں میں طبقاتی جدوجہد کے متعلق شعور میں انتہائی اضافہ کیا۔ایک نوجوان لڑکی ایما گولڈ نے کہا کہ ’’ مئی 1886کے واقعات کے بعد میں محسوس کرتی ہو ں کہ میرے سیاسی شعور کی پیدائش اس واقعے کے بعد ہوئی ہے۔‘‘
البرٹ پارسن نے کہا ’’دنیا کے غریبوں کو چاہئے کہ اپنی نفرت کو ان طبقوں کی طرف موڑ دیں جو ان کی غربت کے ذمہ دار ہیںیعنی سرمایہ دار طبقہ‘‘جب مزدوروں پر فائرنگ ہو رہی تھی تو ایک مزدور نے اپنا سفید جھنڈا ایک زخمی مزدور کے خون میں سرخ کر کے ہوا میں لہرا دیا۔ اس کے بعد مزدور تحریک کا جھنڈ اہمیشہ سرخ رہا۔سن 1889ء میں ریمنڈلیوین کی تجویز پر یکم مئی 1890ء کو یوم مئی کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا اس دن کی تقریبات بہت کامیاب رہیں۔ اس کے بعد سوائے امریکہ ، کینیڈا اور جنوبی افریقہ کے‘ یہ دن عالمی یوم مزدور کے طور پر منایا جانے لگا۔ماضی کی اس کامیاب جدوجہد کے باعث فیکٹری اور مل کے ملازمین کو کسی حد تک تحفظات مل گئے لیکن ایک عام مزدور جو صبح چوک پر اپنی مزدوری کا انتظار کرتا ہے۔ جو صبح مزدوری کرتا ہے اور رات کو اس کا چولہا جلتا ہے کسی بھی سرکاری یا پرائیویٹ چھٹی کے ساتھ ہی اس کے گھر میں فاقے کی آمد ہوتی ہے۔ ایسے مزدوروں کی زندگی میں یکم مئی کی کیا اہمیت ہو گی۔
یہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یومِ مئی صرف اس حادثے کی یاد منانے کا نام نہیں جس میں بہت سے مزدور مارے گئے۔ بلکہ یہ مزدور کی زندگی کو ایک آرام دہ انسانی زندگی کے لیول پر لانے کی جدوجہد کامیابی تک جاری رہے گی۔چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ قومی ترقی کی عظیم جدوجہد میں ہمارے جواں ہمت محنت کشوں کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے،پاکستان ان تمام سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہے جن میں مزدوروں کے حقوق کی فراہمی و تحفظ ریاست کا آئین فراہم کرتا ہے محنت کشوں کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں یکم مئی محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کی علامت کے طور پر منایا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی محنت کشوں کے حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ ہنرمند اور غیر ہنرمند مزدورں کی کم سے کم معاوضے میں اضافہ کر کے محنت کشوں کے مسائل کومزید کم کیا جا سکتا ہے،حکومت وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کیلئے نہ صرف اندرون ملک کام کرنے والے محنت کشوں بلکہ تارکین وطن کے مسائل کے حل اور بہبود کیلئے متعدد اقدام اٹھا رہی ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ یکم مئی مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کا دن ہے۔
یہ دن ہمیں ان مواقع کو تسلیم کرنے اور خراج تحسین پیش کرنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے جو محنت کشوں نے اپنے اپنے ممالک کی ترقی، خوشحالی اور فلاح و بہبود کے لئے کئے ہیں۔موجودہ حالات کے تناظر میں یہ دن مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے، پاکستان کی متحرک افرادی قوت ہماری ترقی کی اصل رفتار ہے، حکومت کا تیز، جامع اور پائیدار ترقی کا ہدف صرف ہماری محنتی، سرشار اور پرعزم افرادی قوت کی بدولت ہی حاصل ہوسکتا ہے۔