هفته,  23 نومبر 2024ء
ضمنی انتخابات میں کامیابی سے مسلم لیگ ن کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ

تحریر:اصغرعلی مبارک

ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سے پارٹی کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہےدو قومی اور 10 صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں جیت کر مسلم لیگ (ن) کی وفاق اور صوبے میں پوزیشن مستحکم ہوئی ہے ضمنی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے حیران کُن ہیں 8 فروری کے عام انتخابات سے زیادہ منصفانہ, شفاف اور آزادانہ کہا جاسکتا ہے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلی کی 14 نشستوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے 8 فروری کے انتخابات پر شک و شبہات کے بیانیہ کاخاتمہ کردیا ہے، ضمنی انتخابات کے نتائج بتا رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سے پارٹی کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کا انقلاب اب کہاں گیا ہے ؟ ضمنی انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو پورے پاکستان میں حکومتی اتحادی جماعتوں کے امیدواروں نے بھاری مارجن سے کامیابی سمیٹی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان وزیر اعلی خیبر پختون خواہ کی قومی اسمبلی کی چھوڑی گئی نشست پر ان کے بھائی کی کامیابی کے سوا تحریک انصاف کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر پائی۔ خیبر پختون خواہ کے علاقہ باجوڑ سے اپنی خالی کردہ نشست پر بھی تحریک انصاف شکست کھا گئی۔

خیبر پختون خواہ سے ایک قومی اور ایک صوبائی نشست بچا سکی باقی صرف بھکر کی نشست پر مقابلہ نظر آیا جہاں مسلم لیگ ن کے اکبر نوانی نے تین ہزار کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی ورنہ باقی حلقوں میں تو مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف کے امیدواروں کو قریب بھی آنے نہیں دیا۔
لاہور میں وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کی چھوڑی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ ن کے امیدوار علی پرویز ملک نے 25 ہزار کی لیڈ سے فتح حاصل کی ہے حالانکہ 8فروری کو ہونے والے الیکشن میں خود مریم نواز اتنی لیڈ حاصل نہیں کر پائی تھیں ۔

قصور سے میاں شہباز شریف کی چھوڑی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ ن کے امیدوار ملک رشید نے تحریک انصاف کے محمد حسین ڈوگر کو 56 ہزار کی لیڈ سے ہرایا ۔ گجرات میں چوہدری پرویز الہی اپنے بھتیجے موسی الہی سے 45 ہزار کی لیڈ سے ہار گئے۔ وزیر آباد میں تحریک انصاف اپنی جیتی ہوئی نشست بھی نہیں بچا پائی۔ ن لیگ کے عدنان افضل چھٹہ نے تحریک انصاف کے فیاض چھٹہ کو 16 ہزار کے فرق سے ہرایا ہے۔ نارووال میں احمد اقبال نے تحریک انصاف کے امیدوار اویس قاسم کو ساڑھے 13 ہزار کے مارجن سے شکست دی ہے۔

شیخوپورہ میں ن لیگی امیدوار رانا افضال نے تحریک انصاف کے امیدوار اعجاز حسین بھٹی کو ساڑھے 16 ہزار کے مارجن سے ہرایا ہے۔ لاہور میں مسلم لیگی امیدوار ملک ریاض نے حمزہ شہباز کی خالی کردہ نشست پر تحریک انصاف کے محمد خان مدنی کو 15 ہزار کی لیڈ سے ہرایا ہے۔ پی پی 158 چوہدری نواز نے تحریک انصاف کے چوہدری مونس الہی کو 12 ہزار کی لیڈ سے شکست دی ۔ راشد منہاس نے پی پی 164 میں یوسف میو کو 5 ہزار سے ہرایا ہے۔ پی پی 149 میں استحکام پاکستان پارٹی کے شعیب صدیقی نے اپنے لیڈر علیم خان کی خالی کردہ نشست پر ذیشان رشید کو 14 ہزار کے فرق سے ہرایا ہے۔ چکوال میں ن لیگی امیدوار فلک شیر نے نثار احمد کو 8 ہزار سے شکست دی ۔ ڈیرہ غازی خان میں ن لیگی امیدوار علی احمد لغاری نے آزاد امیدوار محی الدین کو 38 ہزار کی لیڈ سے شکست دی ۔ ضمنی الیکشن میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کی پرفارمنس حیران کن ہےبجلی گیس اور ذرائع نقل وحمل کئی گنا مہنگے ہو گئے ہیں۔ اس کے باوجود عوام نے ن لیگ کو ریکارڈ کامیابی سے نوازا ہے دوسری جانب تحریک انصاف جو 8 فروری کو انقلاب کی باتیں کر رہے تھے وہ خاموش انقلاب کہاں گیا تحریک انصاف کا ووٹر مایوس ہو گیا ہے۔

21 اپریل کو ضمنی الیکشن میں ٹرن آوٹ بھی کم رہا اور لوگوں نے مایوسی کا بھی اظہار کیا ہے۔ ضمنی الیکشن میں سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ مجموعی طور پر ان نتائج کا حکومت کو فائدہ پہنچا ہےضمنی انتخابات میں پاکستان بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے 23 حلقوں میں 239 امیدوار مد مقابل تھے۔ ان انتخابات میں کل 239 امیدواروں نے 50 خالی ہونے والی نشستوں کے لیے مقابلہ کیا تھا قابل ذکر بات یہ ہے کہ آصفہ بھٹو زرداری پہلے ہی این اے 207 سے بلامقابلہ منتخب ہو چکی ہیں۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کی خالی نشستوں کے لیے کل 23 امیدوار تھے جب کہ پنجاب میں 154 امیدوار اپنی قسمت آزما رہےتھے۔ سندھ میں زبیر احمد جونیجو نے پی ایس۔80 سے بلامقابلہ اپنی نشست حاصل کی۔ بلوچستان اسمبلی کی خالی نشستوں کے لیے 12 امیدوار میدان میں تھے ضمنی انتخابات پر فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نےاپنی جائزہ رپورٹ جاری کردی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ضمنی انتخابات کے حلقوں میں جیت کے مارجن میں اضافہ دیکھا کیا گیا۔ ووٹوں کی گنتی سمیت انتخابی عمل بڑی حد تک مناسب طریقہ کار کے مطابق تھا تاہم چند ایک حلقوں میں تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔

جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضمنی انتخابات کے دوران ووٹر ٹرن آؤٹ 8 فروری کے جنرل الیکشن کی نسبت تبدیل ہوتا ہوا نظر آیا۔ لاہور میں تو ووٹر ٹرن آوٹ واضح طور پر کم ہوا، گجرات، خضدار اور قلعہ عبداللہ میں ووٹرن آوٹ میں شرح بلند ہوئی،گنتی سے خارج ووٹوں کی تعداد بھی آدھی ہوگئی۔ فافن نے بتایا کہ نتائج کی شفافیت اور بیلٹ پیپرز کے اجرا کے عمل میں بے ضابطگیوں کے کچھ واقعات بھی مشاہدے میں آئے۔ جائزہ رپورٹ میں کہا کہ ووٹر ٹرن آؤٹ کی شرح تقریباً 36 فیصد رہی، جو 8 فروری کے انتخابات کے مقابلے میں کم تھی، خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح میں 12 فیصد اور مردوں کی شرح میں 9 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔

مجموعی طور پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں 75 ہزار 640 کا اضافہ ہوا، 8 فروری کے عام انتخابات میں ان حلقوں میں 72 ہزار 472 ووٹ گنتی سے خارج ہوئے تھے اور ضمنی انتخابات میں 35 ہزار 574 ووٹ خارج ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق پی پی-36 وزیر آباد اور پی پی-93 بھکر کے علاوہ جماعتوں نے عام انتخابات کے دوران اپنی جیتی گئی نشستیں برقرار رکھیں، ان دو حلقوں میں 8 فروری کو بالترتیب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد اور دیگر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے جبکہ ضمنی انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے حیران کُن ہیں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے بڑے فیصلے کرتے ہوئے شہباز شریف سے پارٹی صدارت واپس لیتے ہوئے خود پارٹی صدر بننے کا فیصلہ کیا ہےوہ پارٹی کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت اور پارٹی معاملات کو الگ الگ کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ نواز شریف نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ پارٹی کی صدارت بھی خود سنبھالیں گے۔اس سلسلے میں جلد ہی مسلم لیگ ن کی جنرل کونسل کا اجلاس بلایا جائے گا جہاں پارٹی کے نئے صدر کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا

خیال رہے کہ مسلم لیگ ن اصل میں نواز شریف کی ہی شناخت اور پہچان والی جماعت ہے اور اس جماعت کے نام میں شامل لفظ ن نواز شریف ہی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما اور کارکنان شہباز شریف کی موجودگی میں بھی پارٹی کے اہم فیصلوں کے لیے نواز شریف کی طرف ہی دیکھتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ فیصلے نواز شریف ہی کرتے ہیں۔ اس لیے اگر نواز شریف پارٹی صدارت سنبھالتے ہیں تو اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں یہ پہلا موقع نہیں ہو گا کہ نواز شریف پارٹی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد اس منصب پر واپس منتخب ہوں گے بلکہ پرویز مشرف دور میں بھی انہیں اس منصب سے علیحدہ ہونا پڑا تھا اور شہباز شریف مسلم لیگ ن کے صدر منتخب ہوئے تھے تاہم 2010 میں نواز شریف دوبارہ پارٹی کے صدر منتخب کیے گئے تھے۔
نواز شریف سمجھتے ہیں کہ سیاسی محاذ پر مسلم لیگ ن کو متحرک رکھنے کے لیے اسے تنظیمی طور پر مضبوط کرنا ضروری ہے۔ وہ ضمنی انتخابات کے سلسلے میں خاموشی سے کام کر رہے تھے اور پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کا سلسلہ بھی جاری تھا جس کے نتیجے میں ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سے پارٹی کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہےاگر ماضی میں دیکھا جائے تو نواز شریف کو حکومت سے زیادہ اپنی پارٹی عزیز رہی ہے، انہوں نے حکومتوں کی قربانی دی ہے لیکن پارٹی کی سیاست پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اب بھی نواز شریف چاہتے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کو منظم کرتے ہوئے کارکنان سے براہ راست رابطے میں آئیں۔ اس لیے نواز شریف اپنی پارٹی کی سیاست بچانے کے لیے متحرک ہوئے ہیں

شہباز شریف اگرچہ پارٹی صدر ہیں لیکن وزیراعظم ہونے کی وجہ سے ان کے پاس پارٹی کے لیے کوئی وقت بھی نہیں ہے۔ اس لیے نواز شریف نے پارٹی صدر بننے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ ن لیگ کی سیاست کے لیے بہتر ہوگا۔نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد سے اب تک ہر اس فیصلے کو واپس لیا گیا ہے جو 2017 میں انہیں اقتدار سے باہر نکالنے کے لیے کیا گیا تھا۔ نواز شریف کا پارٹی کا صدر بننا ایک اور فیصلے کو واپس لینے کے سلسلے کی کڑی ہے۔یہ تاثر دن بدن مضبوط ہوا کہ نواز شریف کی واپسی اس ریورس انجینیئرنگ سے مشروط تھی جس کے تحت ایک ترتیب کے ساتھ نواز شریف کو اقتدار سے باہر کیا گیا، ان کے خلاف مقدمات بنائے گئے، انہیں سزا سنائی گئی اور انہیں پارٹی صدارت سے ہٹایا گیا۔ اب وہ سارے فیصلے ایک ایک کر کے واپس ہو چکے ہیں .

خیال رہے کہ نو فروری کی شام جب سابق وزیراعظم نواز شریف انتخابی نتائج پر بات کرنے کے لیے میڈیا کے سامنے آئے تو انہوں نے شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ’جائیں اور اتحادیوں سے بات کرکے حکومت بنائیں۔‘ یہ پہلا موقع تھا جب انتخابی نتائج کے فوری بعد نواز شریف نے حکومت سازی کے عمل سے لاتعلق ہونے کا اشارہ دیا تھا۔اس کے کچھ ہی دنوں بعد جب اتحادی جماعتوں نے شہباز شریف کو وزیراعظم نامزد کیا اس دن چوہدری شجاعت حسین کے گھر پر چھ سے زائد سیاسی جماعتوں کی قیادت جمع تھی لیکن نواز شریف وہاں موجود نہیں تھے۔ن لیگ کے قائد نواز شریف نے وفاقی حکومت سے ایسا رخ موڑا ہے کہ سوائے لازمی ووٹ ڈالنے کے وہ اسلام آباد ہی نہیں آتے۔ شہباز شریف کے وزیراعظم ہاؤس میں گزرے تین ہفتوں میں ایک مرتبہ بھی نواز شریف وزیراعظم ہاؤس نہیں گئے۔ تاہم وہ پنجاب کے معاملات میں کسی حد تک دلچسپی لیتے دکھائی دیے ہیں۔ریم نواز بھی بحیثیت وزیراعلیٰ وفاقی حکومت اور وزیراعظم پر انحصار نہیں کر رہیں۔

ان کی سوشل میڈیا سٹریٹجی بہت کامیاب ہے,نواز شریف کے قریبی ساتھیوں خواجہ آصف، عرفان صدیقی اور جاوید لطیف کے بیانات سے بھی لگ رہا ہے کہ نواز شریف بظاہر موجودہ سیٹ اَپ سے خوش نہیں,آٹھ فروری کے بعد سے اب تک نواز شریف نے پبلک کے سامنے صرف ایک دفعہ 9 فروری کو جبکہ اپنی جماعت کے منتخب ارکان یعنی پارلیمانی پارٹی سے بھی ایک دفعہ مخاطب ہوئے۔

اس کے علاوہ نواز شریف سیاسی معاملات بالخصوص وفاقی حکومت سے متعلق گہری چپ سادھے ہوئے ہیں۔اس کے باوجود شہباز شریف خود کو سیاسی طور پر تنہا محسوس نہیں کر رہے کیونکہ وہ نبھانے میں بہت اچھے ہیں اور ہمیشہ سسٹم کے من چاہے فرد رہے ہیں۔ وہ جب تک ہاں میں ہاں ملاتے رہیں گے کوئی تنازع ہی جنم نہیں لے گا۔خیال رہے کہ نواز شریف کے طرز حکومت سے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پالیسیوں اور عہدوں سے متعلق کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتے۔ وہ خود بھی اس بات کا اظہار کئی مرتبہ کر چکے ہیں، اور دوسرا ان کی زیادہ تر توجہ ترقیاتی منصوبوں پر ہوتی ہے۔ اس کی ایک جھلک ان کے پنجاب حکومت کے اس اجلاس میں شرکت سے بھی نظر آئی جس میں انہوں نے لاہور میں زیرِ زمین ٹرین چلانے کے لیے افسران کو فیزبیلٹی رپورٹ بنانے کی ہدایت کی۔

مزید خبریں