تحریر:اصغر علی مبارک
ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے 1947 میں پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا۔ پہلے دن سے ایران اور پاکستان نے ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ایران ہر فورم پر کشمیر سمیت ان اہم معاملات پر پاکستان کے مؤقف کا اعادہ کرتا آیا ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اہمیت کے حامل ہیں۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے پاکستان کا دورہ اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی دوران کیا ہےگوکہ اس دورے کا اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی سے کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ ایرانی صدرکا دورہ اس وقت شیڈول کیا گیا تھا جب رواں برس کے آغاز میں دونوں ممالک میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نےپاکستان کا تین روزہ دورہ کیا تھا دونوں ممالک کی جانب سے اس دورے کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ۔
پاکستان اور ایران کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے میں دونوں ممالک نے ریمدان بارڈر پوائنٹ کو بین الاقوامی سرحدی کراسنگ پوائنٹ قرار دینے، باقی دو بارڈرز پر مارکیٹس کھولنے اور اقتصادی وتجارتی سرگرمیوں کیلیے بارڈر ٹریڈ میکنزم مکمل فعال کرنے پر بھی اتفاق کیا اور کہا کہ سرحدی غذائی منڈی مقامی باشندوں کی معاشی صورتحال بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان ایران مشترکہ سرحد’’امن اور دوستی کی سرحد ‘‘ہونی چاہیے اور مشترکہ سرحد کو ‘امن کی سرحد’ سے ‘خوشحالی کی سرحد’ میں تبدیل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
دونوں ممالک نے سیاسی، فوجی اور سیکیورٹی حکام کے درمیان باقاعدہ تعاون اور تبادلہ خیال کی اہمیت کا اعادہ کیا اور تجارتی اور اقتصادی تعاون کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کرتے ہوئے مشترکہ سرحدی منڈیوں کے قیام اور ترقی پر مبنی اقتصادی منصوبوں پر بات کی گئی۔ پاکستان اور ایران میں توانائی کے شعبے میں تعاون کی اہمیت کا اعادہ کیا گیا جس میں بجلی کی تجارت، ترسیل اور آئی پی گیس پائپ لائن پراجیکٹ شامل ہیں جب کہ اقتصادی اور تکنیکی ماہرین کے ساتھ چیمبرز کے وفود کے تبادلے کی سہولت پر بھی اتفاق کیا گیا۔
اعلامیے میں دونوں رہنماؤں نے باہمی تجارت کو 5 سالوں میں 10 بلین ڈالر تک بڑھانے پر، آزاد تجارتی معاہدے کو تیزی سے حتمی شکل دینے پر اتفاق اور سیاسی مشاورت ومشترکہ کاروباری تجارتی کمیٹی کے اگلے اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق جب کہ پائیدار اقتصادی شراکت داری، علاقائی اقتصادی اور روابط کے ماڈل کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا ۔ پاکستان اور ایران نے روابط کے فروغ کیلیے جغرافیائی مقامات کو استعمال کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے علمی، ثقافتی اور سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ کے ذریعے تعلقات کو مضبوط کرنے کےعزم کا اعادہ کیا گیا۔
دونوں فریقین کا ٹی آئی آر کنونشن کےتحت سامان کی ترسیل میں پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا گیا تھااور باہمی تجارت کو مزید فروغ دینے کے لیے کنونشن کو مکمل فعال کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا گیا کہ کنونشن کو فعال کرنے سے ای سی او کے وسیع علاقے میں علاقائی انضمام اور رابطے میں بھی اضافہ ہوگا۔ پاکستان اور ایران نے گوادر، چاہ بہار کی بندرگاہوں میں باہمی فائدہ مند اور پائیدار روابط بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ۔
ساتھ ہی ایس سی او اور افغانستان رابطہ گروپ کی سرگرمیوں کو جلد شروع کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا اور کہا گیا تھا کہ ایس سی او اور ای سی او میں تعاون پورے خطے کی ترقی کو تیز کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
پاکستان اور ایران نے قیدیوں کی رہائی اور ملزمان کی حوالگی کیلیے 1960 کے معاہدے پر عملدرآمد کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا تھا۔ دہشتگردی کو خطے کی ترقی میں بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے دونوں ممالک نے دہشتگردی کی تمام شکلوں اور مظاہر کی مذمت کی ہے اور تسلیم کیا ہے کہ دہشتگردی علاقائی امن واستحکام کے لیے مشترکہ خطرہ ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں دونوں ممالک نے علاقائی خودمختاری، سالمیت کو مکمل طور پر برقرار رکھتے ہوئے اس خطرے کا موثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے باہمی تعاون پر مبنی نقطہ نظر اپنانے پر اتفاق کیا گیا تھا اور سیکیورٹی ماحول کو بہتر بنانے کے میں اقتصادی اور تجارتی مواقع میں اضافے کے کلیدی کردار کو تسلیم کیا گیا۔ اعلامیے میں مشترکہ چیلنجز پر مذاکرات، سفارتکاری کے ذریعے تنازعات کے پُر امن حل کی اہمیت پر زور اور مسئلہ کشمیر کو خطے کے لوگوں کی مرضی کے مطابق حل کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا۔ دونوں ممالک نے غزہ کی غیر انسانی ناکا بندی، فلسطینیوں کیخلاف اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت کی اور کہا تھا کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں اور تباہی ہوئیں جب کہ لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوئے۔
اعلامیے میں دونوں ممالک نے فلسطینی عوام کی امنگوں پر مبنی منصفانہ اور جامع، پائیدار حل کیلیے مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی فلسطین میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی، غزہ کے محصور لوگوں تک بلا روک ٹوک انسانی رسائی، بے گھر فلسطینیوں کی واپسی اور اسرائیلی حکومت کی جانب سے کیے گئے جرائم کے احتساب کو یقینی بنانے کے مطالبات بھی کیے گئے۔ اعلامیے میں دونوں ممالک نے دمشق میں ایرانی سفارتخانے کے قونصلر سیکشن پر حملے کی شدید مذمت کی اور کہا تھا کہ یہ حملہ شام کی خود مختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزی تھی اور اسکے استحکام وسلامتی کو نقصان پہنچاتی تھی۔ اس حملے کو عالمی قوانین، یو این چارٹر کی خلاف ورزی اور سفارتی تعلقات کے ویانا کنونشن کے تحت غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اسرائیلی حکومت کی افواج کا یہ غیر ذمے دارانہ عمل پہلے سے ہی غیر مستحکم خطے میں ایک بڑا اضافہ تھا۔ سلامتی کونسل اسرائیل کو مہم جوئی ،پڑوسیوں پرحملے،سفارتی تنصیبات کونشانہ بنانےکےغیر قانونی اقدامات سے روکے۔
پاکستان اور ایران نے اسلامو فوبیا، قرآن پاک سمیت مقدس نشانات کی بے حرمتی کے واقعات کی مذمت کی اور کہا کہ آزادی اظہار کے بہانے مذہبی منافرت کی وکالت جو امتیازی سلوک، دشمنی یا تشدد کو اکساتی ہو اسکی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اعلامیے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد “اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے اقدامات” کی منظوری کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسلامو فوبیا سے نمٹنے کیلیے خصوصی ایلچی کی جلد تقرری کے ساتھ دیگر متعلقہ اقدامات کے نفاذ پر زور دیا گیا تھا۔
اعلامیے میں ایران کی اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے اقدامات سے متعلق قرارداد منظور کرانے پر پاکستان کی تعریف گئی اور کسی بھی ذریعے سے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی سخت مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے مشاورت اور تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیاتھا ۔ ہمارے ایران کے ساتھ کوئی زمینی تنازع یا نظریاتی مسئلہ نہیں۔ ہم دونوں مسلمان ملک ہیں۔ ہماری مشترکہ سرحد اور کلچر ہے1965 اور 1971 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگوں میں بھی ایران نے پاکستان کا کُھل کر ساتھ دیا اور پاکستان کو ایران کی سفارتی حمایت حاصل رہی۔ چند مواقع اور معاملات پر تناؤ اور مشکلات کے باوجود پاکستان اور ایران کے تعلقات عمومی طور پر دوستانہ ہی رہے ہیں ایران کی خارجہ اور اندروںی پالیسیوں میں آنے والے بڑی تبدیلیوں کے باوجود بھی اس کے پاکستان سے تعلقات بہتر ہی رہے۔پاکستان جب 28 مئی 1998 کو جوہری ملک بنا تو ایران میں اس بات کا جشن منایا گیا تھا۔ تاہم اس کے بعد پاکستان پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ذریعے جوہری راز کی متعدد ممالک کو فروخت کا الزام بھی لگا، جس میں ایران کا نام بھی لیا گیا یہ وہ معاملہ پر جس پر ایران اور پاکستان کے تعلقات عالمی سطح پر زیربحث آئے اور اس ضمن میں خدشات کا اظہار کیا گیا۔ تاہم جنرل مشرف کے دور میں ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سرکاری ٹی وی پر دیگر ممالک کو جوہری راز کی فروخت کے الزامات تسلیم کیے جس کے بعد سنہ 2004 میں انھیں معافی دینے کے بعد ان کے گھر میں نظربند کر دیا گیا تھا۔
پاکستان میں ایران کے انڈیا کے ساتھ قریبی روابط پر تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ جس کی ابتدا بلخصوص مئی 2016 میں اس وقت ہوئی جب وزیر اعظم نریندر مودی نے ایران کا دورہ کیا اور پھر ایران میں چاہ بہار بندرگاہ کو ترقی دینے اور چلانے کے لیے انڈیا، ایران اور افغانستان کے مابین سہ فریقی تعلقات کے لیے 550 ملین ڈالر کے فنڈ کا اعلان کیا تھا پاکستان، ایران گیس پائپ لائن پراجیکٹ کا افتتاح مارچ 2013 میں پاکستان اور ایران کے صدور نے کیا تھا۔ ایران کا یہ الزام رہا ہے کہ پاکستان عالمی طاقتوں کے دباؤ پر اس منصوبے سے پیچھے ہٹا ہے۔ ایران نے اپنی طرف سے 900 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کا کام مکمل کر کے پائپ لائن پاکستانی سرحد تک پہنچا دی مگر پاکستان ابھی تک آگے نہیں بڑھ سکا۔ ایران کے ساتھ کاروبار کی وجہ سے اقوام متحدہ کی پابندیوں کے خدشے کے باعث کوئی بین الاقوامی مالیاتی ادارہ اس گیس پائپ لائن منصوبے میں رقم لگانے کے لیے تیار نہیں ۔ تعمیراتی کمپنیاں کام کرنے کو تیار نہیں اور ضروری سازوسامان فروخت کرنے والے ادارے بھی اس منصوبے کے لیے سامان فراہم کرنے کو تیار نہیں ہیں , پاکستان اور ایران کے عالمی سطح پر نظریات ایک جیسے نہیں ہیں اور نہ ہی پاکستان عالمی فورمز پر ایرانی نظریات کا ساتھ دیتا ہے، لیکن جغرافیائی قربت، ثقافتی اور مذہبی تعلقات، سرحد پار دہشت گردی اور سمگلنگ کے مسائل دونوں ممالک کو قریب لاتے ہیں اس دورے کا بنیادی مقصد معاشی معاملات پر اکٹھا ہو کر چلنے پر تھا ۔ پاکستان ایران سے برآمدات کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے اور چاہے کشیدگی بھی ہو لیکن ہماری سرحدوں پر قائم بازاروں میں ترقی دیکھی گئی ہے۔
اور اس دورے میں اس غیر روایتی تجارت کو چینلائز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ اُس کے ایران کے ساتھ تعلقات مستحکم اور مضبوط رہیں، کیونکہ مشرق اور مغرب میں موجود دونوں مُمالک یعنی افغانستان اور انڈیا کے ساتھ سرحد پر کشیدگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، تو ایسے میں پاکستان ایران کے اچھے تعلقات دونوں مُمالک کے لیے ضروری ہیں دونوں ممالک میں تعلقات میں بہتری کی سیاسی خواہش موجود ہے لیکن اس میں اہم کردار دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور معیشت ادا کرے گی۔ ایرانی صدر کا یہ دورہ حالیہ ایران اسرائیل کشیدگی سے بہت پہلے طے ہوا تھا۔ اور یہ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں پیدا ہونے والی تلخی کے بعد طے کیا گیا تھا۔
اس پس منظر میں یہ دورہ ضروری اور انتہائی اہمیت کا حامل تھا اس لیے کہ دونوں مُلکوں کے درمیان تعلقات کو جو نقصان پہنچا تھا اُسے دوبارہ سے بحال کرنے کی بہت ضرورت تھی۔
ہر مُلک اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے تعلقات کو استوار کرنے پر غور کرتا ہے اور اس پر کام کرتا ہے۔ اگر امریکہ کو پاکستان اور ایران کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات پر خدشات ہیں تو یہ اُن کے مُلک کا اندرونی معاملہ ہے، ہمارے یعنی پاکستان کے مفاد میں تو یہ ہے کہ اُس کے تعلقات اُس کے ہمسایہ مُلک کے ساتھ اچھے رہیں۔ امریکہ پاکستان اور ایران کے اچھے اور مستحکم تعلقات سے خوش نہیں اور یہ اُن کے مفاد میں نہیں ہو گا مگر پاکستان کے مفاد میں یہی ہے کہ اُس کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں امریکہ اور دیگر مُمالک کے اس دورے پر خدشات تھے,امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے پاک ایران تجارتی معاہدوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر پابندیوں کا خطرہ ہو سکتا ہے، تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والوں کو ممکنہ پابندیوں کے خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے کہا ہے کہ امریکا پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈیوں میں سے ایک ہے، اپنی شراکت داری کو جاری رکھنے کے منتظر ہیں۔پاکستان اورایران کےدرمیان معاشی تعلقات کےایک نئے دورکا آغازہو ا ہےخصوصی اقتصادی زون کےقیام سےدونوں ممالک کےدرمیان معاشی تعلقات کومزیدوسعت ملے گی دُنیا ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورے کو انتہائی اہم قرار دے رہی ہے۔مغربی ممالک اور خصوصاً امریکہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان اور ایران قریب آئیں اور جو بھی ملک ایران کے قریب جاتا ہے اس پر امریکہ کی طرف سے دباؤ آتا ہےپاکستان کی حکومتیں ہمیشہ ہی امریکہ اور مغربی دنیا کو بتاتی ہیں کہ ’ایران ہمارا پڑوسی ہے اور اس سے ہمارے تاریخی تعلقات ہیں پاکستان انھیں باور کرواتا ہےکہ ایران کے ساتھ تجارتی، اقتصادی اور تعزویراتی تعلقات رکھنا ہماری خواہش ہے بلکہ مجبوری ہے امریکہ کو سوچنا چاہیے کہ اس خطے میں عوامی جذبات ان کے خلاف ہیں اور وہ یہاں تنہائی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔مغربی طاقتوں کو اپنی پالیسیوں پر نہ صرف نظرِثانی کرنی چاہیے بلکہ انھیں خود بھِی اس خطے کے ممالک کے ساتھ انگیجمنٹ بڑھانی چاہیے۔ اسرائیل کے ساتھ کشیدگی کی شروعات کے بعد کسی ملک نے ایران کی کھل کر حمایت نہیں کی اور ایسے میں ایران کی کوشش یہ ہوگی کہ وہ دنیا کو یہ تاثر دےکہ ایران کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں پاکستان کی جانب سے دونوں فریقین پر زور دیا گیا تھا کہ وہ کشیدگی بڑھانے سے گریز کریں اور تناؤ کو کم کریں۔
واضح رہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک ڈھکی چھپی جنگ بہت عرصے سے جاری ہے تاہم اس کی شدت میں اضافہ حالیہ دنوں میں اس وقت ہوا جب یکم اپریل کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر ایک میزائل حملے میں پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سات اراکین سمیت 13 افراد مارے گئے۔ اس حملے کے پیچھے اسرائیل ہی تھا۔ ایران نے اس حملے کے جواب میں 13 اپریل کو میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے اسرائیل پر حملہ کیا۔ ایران کے اس حملے پر امریکہ، برطانیہ، فرانس اور کینیڈا سمیت دیگر طاقتور ممالک کی جانب سے مذمتی بیان جاری کیے ایران اسرائیل تنازعے کے پس منظر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور معاشی حالات کے تناظر میں بھی یہ دورہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے قبل رواں برس کے آغاز میں پاکستان اور ایران کے تعلقات میں تلخی دیکھنے میں آئی تھی جب دونوں پڑوسی ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کی سرزمین پر کیے جانے والے حملوں کو مبینہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں قرار دیا گیاایرانی صدر کے دورے پر پاکستان میں ایرانی سفارتخانے نے بتایا کہ صدر ابراہیم رئیسی کے دورے کا ایجنڈا دونوں ممالک کے درمیان ’دو طرفہ تعلقات کو ترجیح دینا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے خطرات ایک بار پھر 19 اپریل کو اس وقت بڑھتے ہوئے دکھائی دیے جب امریکی حکام نے ایران کے علاقے اصفہان میں ایک اور اسرائیلی حملے کی تصدیق کی۔ ۔پاکستان اور ایران کے تعلقات کے درمیان گیس پائپ لائن اور سکیورٹی سمیت بہت سے مسائل ہیں جو صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے دوران زیرِ بحث آئےایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ ایک پرانا منصوبہ ہے جس میں اس وقت ایک نمایاں پیش رفت ہوئی تھی جب2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت کے آخری دنوں میں صدر پاکستان آصف علی زرداری نے ایران کے دورے کے دوران اس کا افتتاح کیا تھا، تاہم اس کے بعد اس میں کوئی خاص پیش رفت ممکن نہیں ہو سکی۔ ایران اور پاکستان کے درمیان گیس پائپ لائن کے منصوبے کا افتتاح 2013 میں صدر آصف علی زرداری نے کیا تھاواضح رہے کہ ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے اپنے تین روزہ دورہ پاکستان کے دوران صدر پاکستان آصف زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت اہم حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ اس موقع پر کئی مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط ہوئے جب کہ انہوں نے لاہور اور کراچی کا بھی دورہ کیا۔