جب سے امریکہ اور نیٹو فورسز کو کئی سالہ جنگ کے بعد افغانستان میں شکست ہوئی ہے۔ جسکے سبب تمام ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک اپنے جدید ترین دفاعی سازو سامان اور بہترین تربیت یافتہ فوج اور تربیت یافتہ خفیہ اداروں سمیت بے سرو سامانی کے عالم میں افغانستان سے بھاگنا پڑا وہ تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ وجہ یہ کہ انکا ایک متحدہ قوم اور ایسے جنگجووں سے سامنا تھا۔ جو نہ کسی فوجی تربیت گاہ کے تربیت یافتہ تھے اور نہ کسی دفاعی اور خفیہ اداروں کے ٹرینڈ شدہ۔ جبکہ دوسری طرف تمام حملہ اورقوتوں نے افغانستان کو پشتو اور فارسی زبان کے ساتھ ساتھ شیعہ سنی مسلکوں میں تقسیم کرنے کی بھی پوری طرح کوششیں کی۔ لیکن انکا ہر طرح کا حربہ ناکام ہوا۔ اسکی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو ایک افغان قوم سمجھتی تھی جسکا نتیجہ انکی جیت کی صورت میں آج آنکے سامنے ہے۔ اسکے ثمرات سے مستفید ہوکر آزاد افغان کے سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے سر اٹھا کر جی رہے ہیں۔ جو پوری دنیا کے لئے ایک نمونہ ہے۔ جن ممالک نے متحدہ طور پر افغانستان پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ انکے پیش نظر دو واضح مقاصد تھے۔ پہلا مقصد افغانستان کے معدنی وسائل پر قبضہ کرنا اور دوسرا پاکستان کو ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنا تھا۔ جیسا کہ دنیا کے واحد سپر پاور اور اسکے اتحادیوں نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کو چار پانچ ممالک میں تقسیم کیا جائیگا۔ جس کا انہوں نے باقاعدہ لسانی طور الگ الگ ریاستوں کا نقشہ بھی دنیا کو زبانی طور پر بتایا تھا۔ جس پر بعد میں بات کی جائیگی سر دست ہم افغانستان میں امریکی اور اسکے اتحادیوں کی شکست کی بات کرتے ہیں ۔کیونکہ انکے مخالفین جس میں روس، چین اور اس کے اتحادی ممالک اس موقع کی تلاش میں تھے کہ دفاعی اور مالیاتی لحاظ سے انکی کمزوری سے فائدہ اٹھایا جائے ۔ حالانکہ امریکہ نے کوشش کرکے یہ ثابت کرنا چاہاتھا کہ امریکہ ہر طرح سے جنگ کیلئے تیار ہے اور خود کفیل بھی۔ جس کو ثابت کرنے کیلئے امریکہ نے تائیوان میں چین کے خلاف محاذ کھولنے کی کوشش ضرور کی۔امریکہ کو یہ یقین تھا کہ اس جنگ میں بھارت کو چین کے مد مقابل کھڑا کیا جائےگا۔ جسکی زمینی فورسز چین کے ساتھ سرحدوں پر بر سرپیکار ہونگی اور امریکہ مختلف ایشیائی اتحادی ممالک کی فوجیں چین کے سرحدوں پر جنگ میں اتار کر چین کو مصروف جنگ رکھا جائیگا۔ جس پر چین نے سخت ردعمل ظاہر کرکے تمام امریکی اتحادیوں کو بتا دیا کہ اگر چین کے خلاف تائیوان کے مسئلے پر کسی بھی ملک نے امریکہ کا ساتھ دیا تو چین اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دیگا۔ امریکہ اور اسکے نیٹو اتحادیوں کا دوسرا مقصد روس کے خلاف یوکرین میں جنگی محاذ کھولنا تھا۔ اسی لئے وہ چین کو اپنی سرحدوں تک جنگ میں مصروف رکھنا چاہتا تھا تاکہ وہ یوکرین کے جنگ میں روس کو فوجی مدد فراہم نہ کرسکے۔ یہ سارا منصوبہ جنگی ہتھیار و ساز وسامان تائیوان اور یوکرین میں کورونا کی پابندیوں کے آڑ میں دونوں جگہ پہنچاتے رہے۔ جس کو پوری دنیا سے خفیہ رکھنا مقصود تھا۔ روس اور چین امریکی منصوبے سے بے خبر نہیں تھے یہ موقع غنیمت جان کر روس نے یوکرین پر حملہ کرکے امریکی اور اس کے اتحادیوں کا منصوبہ آدھے راستے میں ہی ناکام بنا لیا۔ جیساکہ یوکرین میں جنگ جاری ہے۔ یورپ اور امریکہ اتحادی ممالک اس کو بچانے میں ناکامی کا سامنا کر رہے ہیں۔ دوسری طرف روس اور اس کے اتحادی ممالک بھی اپنے اپنے منصوبوں پر عمل پیرا تھے کہ کونسی ایسی کمزوری پر ہاتھ ڈالا جائے جس سے امریکی اور اسکے اتحادیوں کو سنبھلنے کا موقع نہ مل سکے۔ ان کو اسرائیل سب سے آسان حدف نظر آیا۔ جس نے ایک صدی سے تمام اسلامی پڑوسی ممالک کے علاقوں پر قبضہ جما رکھا ہے اور فلسطین میں قتل عام روز کا معمول بن چکا ہے۔ جنکی نسل کشی کو اسرائیل اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر کر رہاہے۔ لہذا ایک خفیہ منصوبے کے تحت حماس کے مجاہدین کو دن دھاڑے اسرائیل پر حملہ کرنا پڑا۔ جس نے اسرائیل اور اس نے اتحادیوں کو ورطہ حیرت میں ڈالا۔ بہت سا اسلحہ اور اسرائیلی فوجیوں سمیت سویلین کو بھی یرغمال بنا لیا۔ اسرائیل نے حماس کے خاتمے تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کرکے فلسطینی آبادی پر دن رات بارود برسانا شروع کیا۔ اسرائیل کا خیال تھا کہ ایک ماہ تک ہم حماس اور اسکے تمام حمایتیوں کا خاتمہ کرکے غزہ اور اس کے ساتھ منسلکہ علاقوں پر قبضہ کرکے گریٹر اسرائیل کا حصہ بنا دینگے۔ جو انکے غلط معلومات کی بنا پر تمام اندازے غلط ثابت ہوئے۔ اگرچہ فلسطینی آبادی کی شہادتیں پیش بہا ہوئیں، لیکن اس کا نتیجہ فلسطینیوں کے حق میں آنے لگا۔ پور پ ممالک، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، افریقی ممالک ، امریکہ اور ان مسلم ممالک میں سے اسرائیلی مظالم کے ایسی تحریکوں نے جنم لیا کہ اکثر ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا خاتمہ کرنا پڑا ۔ جنکے عوام نے اپنی ہی حکومتوں کو مجبور کیا کہ اسرائیلی مظالم کے خلاف فلسطینیوں کی حمایت کریں۔ جنگ میں اسرائیل کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔ جس کے بر عکس فلسطینی مجاہدین کے ساتھ حزب اللہ جو اسرائیل کے ساتھ پہلے بھی جنگی معرکے کر چکا ہے۔ انکے کمانڈر تسلسل کے ساتھ اسرائیل کو وارننگ دیتے رہے، کہ فلسطینی عوام کی نسل کشی بند کرکے جنگ بندی کا معاہدہ کیا جائے۔جس کا اسرائیل پر کوئی اثر نہ ہوا۔ بلکہ اسرائیل نے طاقت کے زعم میں شام اور لبنان کے کئی علاقوں پر فضائی حملے کرکے وہاں ایرانی، حزب اللہ کے کمانڈروں کو شہید کیا ۔ جس کا بدلہ لینے کیلئے حزب اللہ کو بھی جنگ میں کھودنا پڑا۔ برطانیہ، امریکہ اور کئی دوسرے یورپی ممالک نے ریڈ سی کے راستے جب اسرائیل کو دفاعی اور تجارتی امداد بھیجنا شروع کیا جو ایک نزدیک ترین مروجہ تجارتی راستہ ہے تو یمن نے اپنے بحری گزرگاہ کو بند کر کے اعلان کیا کہ اسرائیل کو کسی قسم کا تجارتی اور دفاعی سازو سامان ہم اپنے بحری گزرگاہ نہیںجانے دینگے۔ انہوں نے امریکی اور دوسرے اسرائیل دوست ممالک کے بحری جہازوں کو یرغمال یا نشانہ بنانا شروع کیا۔ امریکہ اور اسرائیل نے ان تمام کارروائیوں کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا۔ ایران نے واضح اعلان کیا کہ فلسطینی بھائیوں کی ہر ممکن مدد کرینگے ۔ روس اور چین نے بھی فلسطین کی حمایت کا اعلان کرکے اقوام متحدہ اور سیکیورٹی کونسل میں جنگ بندی اور اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی قراردادوں کو سپورٹ کیا۔ جس سے اسرائیل کے خلاف قرار دادیں پاس ہو گئیں۔ فلسطینیوں کی حمایت پوری دنیا میں ہونے لگی۔ جو اسرائیل کیلئے ناقابل برداشت حد تک زندگی اور موت کا باعث بنا ہے۔ ایران کو اس جنگ میں اسرائیل اور امریکہ ضرور گھسیٹنے کی کوشش کرینگے۔۔جو امریکہ کا ایک دیرینہ منصوبہ ہے۔ کہ لیبیا اور عراق پر قبضے کے بعد ایرا ن اور پاکستان سے بھی بدلہ لینا ہے ۔ جو اسرائیل کیلئے خطرے کا باعث ہیں۔اب یورپی یونین اور امریکہ و اسرائیلی اتحادی ممالک ایک طرف یوکرین کے محاذ پر نئے سرے سے متوجہ ہو کر وہاں روس کے خلاف محاذ گرم رکھیں گے۔ کیونکہ روس اور چین فلسطین کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ جبکہ چین کو سبق سکھانے کیلئے پھر سے تائیوان کے محاذ پر جنگ شروع کرنے کی کوشش ضرور کریںگے۔ جو امریکی اور اسکے اتحادی ملکوں کی مجبوری ہے۔ جس سے وہ روس اور چین کو اپنے ہی سرحدی محاذوں پر جنگ میں الجھا کر مشرق وسطیٰ میں اسرائیل پر جنگی دباؤ کم کرنے کی کوشش کرینگے۔ بھارت ، تھائی لینڈ ، فلپائن اور دوسرے امریکی اتحادیوں کو مشرق بعید میں اس غرض کیلئے راضی کیا جا رہا ہے۔ کہ سب ملکر چین کے تمام سرحدوں پر جنگ چھیڑی جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت امریکی ایما پر اس جنگ میں حصہ لینے پر آمادہ ہوجائیگا۔ جو بھارتی رہنماؤں کی دانشمندی پر منحصر ہے۔ کہ وہ کو نسا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ زیادہ قرین قیاس اور شواہد بھی ہیں کہ بھارت اسرائیل کا پرانا گٹھ جوڑ اور چین و بھارت کے سرحدی تنازعے جو عرصہ سے چلے آرہے بیں۔ اس وجہ سے وہ امریکی منصوبے میں شامل ہونے کے بارے میں سوچیں گے۔ اس صورت میں پاکستان جو آج تک خاموشی اختیار کئے بیٹھا ہے ۔ جسکی ایک وجہ اسکے اندرونی سیاسی اور مالی مسائل ہیں۔ اور کچھ عرصہ سے نئے دہشتگردی کے واقعات نے بھی الجھا کے رکھا ہوا ہے۔ وہ کیا قدم اٹھانے کی کوشش کریگا۔ جو بظاہر شش و پنج کا شکار نظر آرہا ہے۔ جبکہ پاک سعودی دفاعی معاہدہ اپنی جگہ موجود ہے۔ اور دونوں ملک مشترکہ طور پر اپنے بہترین مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کو اپنے عوام کی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اس صورتحال میں دونوں ممالک ظاہر ہے فلسطین اور چین کا ساتھ دینگے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے بھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائیگا تاکہ پاکستان جنگ کی صورت میں چین کا ساتھ نہ دے سکے۔ لہذا بھارت ضرور پاکستان کو جنگی طور پر مصروف رکھےگا۔ جو بھارت کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے کیوںکہ بھارت ایک طرف چین کے سرحدوں پر جنگ میں مصروف ہوگا اور یہاں مغربی و جنوبی محاذ پر پاکستان کا سامنا بھی کرنا پڑیگا ۔ ان تمام زمینی حقائق اور مشرق وسطی میں پھیلتے ہوئے اسرائیل و فلسطین کے نام پر مشرق وسطی کے جنگ کا دائرہ مزید وسیع ہونے کے اسباب موجود ہیں۔اسرائیل کو بچانے کیلئے اسکے مغربی ، یورپی اتحادی کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرینگے۔ لیکن اس بار ان کو کئی بار سوچنا پڑے گا۔ کہ پہلے جنگیں ہمیشہ اسرائیل اور یورپی ملکوں کی سرحدوں سے دور لڑی جاتی رہی جس میں افریقی اور ایشیائی ممالک کے باشندوں کا قتل عام ہوتا رہا ہے۔ لیکن اس بار یورپین اور اسرائیلی باشندوں کو مردار ہونے کا مزہ چکھنا پڑا ہے۔ جو انکی لئے قابل قبول نہیں ہے۔ اپریل کے آخیر تک تمام جنگی امکانات کا نقشہ واضح ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ لہذا پاکستانی قوم کو ذہنی طور پر کسی بھی ہنگامی حالات کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ کیونکہ دنیا آج آتش فشاں پر کھڑی ہے۔ جس کا ادراک کر نا وقت کی ضرورت ہے۔ہمیں قومی سطح پر یہ سوال اپنے آپ سے پوچھنا چاہیئے کہ کیا ہمایسے کسی نا گہانی آفت سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں ۔ جبکہ یہ سیاسی ہتھکنڈے اور قلا بازیاں ، یہ ججز کے خطوط، خطوط کے ذریعے زہریلے پاؤڈر بھیجنے کا حیران کن تماشہ، یہ عدالتی نظام میں اسٹبلیشمنٹ کی مداخلت کا غیر ضروری طور پر واویلا کرنا، عمران نیازی کے غیر اہم قید و مراعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ، یہ ائی ایم اایف کی جائز و ناجائز شرائط کا رونا رو نا اور عوام پر روز مرہ مہنگائی کے مسلسل حملے کرنا تمام کورنگ کہانیاں ہیں۔ جن کا حقائق سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے جیسا کہ ہم نے 2000 یا 2002 میں اقبال نامی سو بچوں کے قاتل کی سفاکیت کے بارے میں سنا تھا۔ جبکہ بعد میں ایک جھوٹ موٹ کی ایک چھوٹی سی خبر سنی کہ سو بچوں کے قاتل اقبال نے کھڑکی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم اس مغل بادشاہ رنگیلے کی تاریخ کو ایک بار پھر سے قومی سطح پر دہرا نے جا رہے ہیں۔ جس کو اطلاع دی گئی کہ دشمن کی فوجیں فلاں شہر کو فتح کر گئیں ۔تو اس نے کہا کہ ہنوز دہلی دور است۔ پھر جب اطلاع دی گئی کہ دہلی سے چند میل کے فاصلے پر ہے، تو اس نے کہا کہ ہنوز دہلی دور است۔ صبح اٹھنے سے پہلے اس کے پایہ تخت دہلی پر قبضہ ہو چکا تھا۔ آج ہم پوری قوم بین الاقوامی حالات سے آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ لہذا قومی ذمہ داریوں اور اپنی بقا کی فکر جو قوم نہیں کرتی۔ وہ صدیوں پر محیط غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔