خوچہ چیں کرو یا پیں تول میں آیا ہے۔۔۔کسی نہ کسی قوم کے بارے میں کوئی نہ کوئی لطیفہ ضرور مشہور ہوتا ہے۔ ہم بھی بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ ایک دیہاتی پٹھان نے کالے املوک دکاندار سے خرید لئے۔ اور پیدل چل پڑا۔ کسی شہر میں کام کی غرض سے جا رہا تھا۔ کئی سال پہلے سواری کا خاص بندو بست نہیں تھا۔ بہرحال ڈیڑھ دو میل چلنے کے بعد اسکو بھوک لگی۔ تو چادر کے پلو کے ساتھ باندھے ہوئے املوک کھول کر کھانے لگا۔ اس میں کہیں ایک چھوٹا سا کالا کیڑا بھی اس نے املوک سمجھ کر منہ میں ڈالا۔جب وہ دانتوں کی چکی میں پھنسنے لگا۔ تو اس نے چیں کی آواز نکالی لیکن تب تک وہ اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا۔ آواز بند ہوئی تو پٹھان نے بڑ بڑاتےہوئے کہا۔ کہ خوچہ چیں کرو یا پیں تول میں آیا ہے۔ نہیں چھوڑوں گا۔ ۔آج کل پی ٹی آئی والوں کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ایک طرف ووٹ بنک زیادہ ملا۔ ایم این ایز بھی زیادہ لیکن حکومت سے بھی محروم اور دوسرا مسئلہ یہ کہ انہوں نے ایک ایسے گروپ کے ساتھ حکومت سازی کیلئے اتحاد کرلیا۔ جنہوں نے خواتین کو اس قابل نہیںسمجھا کہ انہیں بھی قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی حیثیت سے بٹھایا جائے۔ جس کا اندازہ پی ٹی آئی ارکان کو بھی تھا۔ لیکن انہوں نے جان بوجھ کر اس کو سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے الیکشن کمیشن کے خلاف بطور پوائنٹ استعمال کرکے سیاسی افراتفری پیدا کرنا تھی۔ رائے عامہ کے سامنے خود کو نا انصافی کا شکار بھی ظاہر کرنا تھا۔ اگر وہاں سے کچھ نہ ملے تو عدالتیں ہمہ وقت کھلی رہتی ہیں۔ جن کا کام محض انہی کی روداد سننی ہے۔ باقی عوام کا کیا ہے۔ سالہا سال سے مقدمے کیلئے عدالتوں کے چکر لگاتے رہیں۔ حکومت وقت اور ان سے وابستہ اداروں کے کرتا دھرتا اب ان کو ایک ہی جواب دے رہے ہیں کہ ۔۔ خوچہ چیں کرو یا پیں تول میں آیا ہے۔جب عمران نیازی کے تمام حربے ناکام ہوتے دکھائی دینے لگے۔ پہر ترکش سے ایک نیا تیر نکال کر میڈیا کے کندھے پر رکھ کر چلا یا گیا۔ دیکھئے کہاں تک جاکر گرتا ہے یا کوئی شکاری خون اس پر لگ سکتا ہے کہ پنکی کو کھانے میں زہر دیا گیا ہے۔ کمال کا تیر ہے جو اپنے ہدف کی طرف جاتا دکھائی نہیں دیتا۔ پنکی بذات خود ایسے عامل رکھتی ہے جو اسکو پل پل کی خبر دیتے ہیں ۔ پھر ایسے نادر روزگار اور جان لیوا حملے سے پیر نی کو باخبر کیوں نہیں رکھا۔ جس سے انکی جان کو خطرہ تھا۔ جبکہ اس سے پہلے پنکی نے ہی عمران نیازی کو وزیراعظم بننے کی خوشخبری سنائی تھی۔شائد عمران نیازی پیرنی کی کرامات بھول گیا۔ یا اسکے جیل جا نے سے دماغی حالت میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ جو اسکے پیرو کاروں کیلئے صدمے کا باعث بن سکتا ہے۔ جس کی ذمہ داری موجودہ حکمرانوں اور جیلر پر آنا لازم ہے۔ لیکن بات وہی ہے کہ چیں کرے یا پیں خوچہ تول میں آیا ہے۔انکے بانی اور سابقہ سلیکٹڈ پرائم منسٹر کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہیں۔ عدالتی نظام کی شفافیت واعلیٰ کار کردگی اور زود ہضم انصاف کے تقاضوں سے مالا مال ۔۔ تعریفی کلمات ادا کرنے کی وجہ سمجھ آئی ہوگی۔ جو ہمارا کام ہے ۔۔ جس کے ہم سب گواہ ہیںچاہے دنیا میں اپنا عدالتی نظام کسی بھی نمبر پرہے۔ اس کا کیا دنیا والے ویسے بھی پاکستانیوں کی اچھائیاں برائیوں میں شمار کرتے ہیں خیر بات اپنے مطلب کی کہ آج کہیں سے ضمانت اور رہائی کا پروانہ جبکہ سرکار کا دوسرے کیس کا بہانہ روکے رکھو۔ جیل میں ابھی تک بہترین خوراک اور ورزش کا سامان مہیا کیا جا رہا ہے۔ ادھر ہی رہے۔ خو چہ چیں کرے یا پیں، تول میں آیا ہوا ہے۔چھ ججز کا چیف جسٹس کو اسٹبلیشمنٹ کی مداخلت کے خلاف خط لکھنا ۔۔جو ہماری سابقہ روایات کا خاصہ ہے۔ کیا کہنے ہیں۔ صدقے واری پھر قوم ساری ۔ چیف جسٹس اور وزیراعظم کی ملاقات اور پی ٹی آئی کا واویلا، نا منظور نا منظور۔۔ خط کے مندرجات اور حقائق جاننے کے بارے میں ریٹائرڈ جج کی سر براہی میں کمیشن کا قیام۔ پی ٹی آئی کو نا منظور ۔۔ریٹائرڈ جج کا انکار ۔۔ چیف جسٹس کا سوموٹو ایکشن لینے کا اقرار، پھر پی ٹی آئی کی چیخ و پکار۔۔ صبر کریں ۔۔ خوچہ چیں کرے یا پیں تول میں آیا ہے۔ہم نے پہلے گزارش کی تھی۔ کہ اپنے کپڑے اتنے پھاڑا کریں تاکہ دو بارہ سلوا سکیں ۔ اب جو مرضی ہوجائے پی ٹی آئی والے کہیں بھی جائیں وہ سیاست اور انتظامیہ کے دانتوں تلے آئے ہوئے ہیں ۔ مقننہ نہ انکا کالے املوک میں سے کالے کیڑے کا رنگ بدل سکتی ہے اور نہ وہ انکو سیاسی اور انتظامی دانتوں سے باہر کھینچ کر لا سکتی ہے۔ پھنسنا ہرحال میں ہے۔ خوچہ چیں کر ے یا پیں تول میں آئے ہیں۔