هفته,  27 جولائی 2024ء
ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے

کرنل کی ڈائری سے،تحریر:لیفٹیننٹ کرنل (ر) ابرار خان

یہ کورونا وائرس کے وہ دن تھے جب ہم بھی دو دو ہفتوں کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں محصور ہو کر رہے گئے تھے۔ لوگوں کے کاروبار بری طرح متاثر ہو چکے تھے۔ کورونا وائرس سے جنم لینے والے معاشی بحران اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کے سب سے زیادہ اثرات ان والدین پر پڑے جن کی آمدن کا ایک بڑا حصہ بچوں کے اسکول کی فیس ادا کرنے میں صرف ہو جاتا تھا۔۔۔

میں ان دنوں ایک نیم سرکاری محکمے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ایجوکیشن کے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ اس ادارے کے ماتحت ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ کے نیچے سولہ اسکول/ کالج اور ایک بہت بڑی پبلک لائبریری رنگ و نسل، مذہب اور سماجی حیثیت سے مبرّا تعلیم و تربیت کے فروغ کے لیے آج بھی کوشاں ہیں البتہ راقم اپنی تین سالہ مدتِ ملازمت کے بعد اب اس کرسی پر موجود نہیں مگر اس وقت کا ایک واقعہ جو ذہن کے نہاں خانے میں کہیں موجود تھا آج ایچیسن کالج کے حالیہ واقعے کی مناسبت سے آپ سب کی نذر کرنا چاہوں گا۔

کورونا کے دنوں میں معاشی بحران کے باعث والدین دو دو، تین تین مہینوں سے فیس دینے سے قاصر تھے۔ انہی دنوں میرے دفتر میں فیس کی ادائیگی کے حوالے سے والدین کا رش لگا رہتا۔ لوگوں کی مجبوریاں تھیں لہٰذا ادارے سے جو کچھ ہو سکا وہ ضرور کیا۔

ایسی ہی ایک صبح ایک صاحب مجھ سے ملنے دفتر میں تشریف لائے۔ سلام دعا اور رسمی گفتگو سے پتا چلا کہ وہ ایک اچھے کاروبار کے مالک ہیں اور ڈی ایچ اے میں رہائش پذیر ہیں۔ جب میں نے ان سے آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ، ٹانگیں اور ہونٹ کپکپانے شروع ہو گئے تھے۔ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے مگر زبان ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ میں نے فوراً انھیں پانی پیش کیا۔ اب ان کی آنکھیں بھی نم ہو رہی تھیں۔ میں نے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر انھیں حوصلہ دیا تو پھر کہیں جا کر وہ بڑی ہمت کر کے روہانسی آواز میں گویا ہوئے کہ کاروبار میں مندی کی وجہ سے وہ فوری طور پہ اپنے تینوں بچوں جو کیمرج اسکول میں مختلف جماعتوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے کی فیس دینے کے متحمل نہیں لہذا اگر ان کو ایک دو مہینوں کی مہلت مل جاتی۔ پھر وہ ہاتھ جوڑ کر گویا ہوئے کہ برائے مہربانی ان کے بچوں کو فیس کے حوالے سے کوئی نوٹس نہ دیا جائے اور نہ ہی بچوں کو ان کی یہاں آمد کی اطلاع دی جائے۔ یہ سب کچھ کہنے کے بعد وہ اپنے جذبات اور آنسوؤں کو مزید نہ روک پائے۔ یہ ہوتی ہے عاجزی، خوداری اور بڑا بن کہ وہ آدمی صرف مہلت مانگتے ہوئے بھی شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا اور آپ ہمارے وزیرِ محترم کی ڈھٹائی دیکھیں، ہمارے گورنر صاحب کی ڈھٹائی دیکھیں، ٹی وی ٹاک شو میں پارٹی ممبران کی ڈھٹائی دیکھیں، سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پہ ان کے حامیوں کی ڈھٹائی دیکھیں۔۔۔

یہ لوگ ایچیسن کالج جیسے عظیم ادارے کو بھی نہیں بخشنے والے۔ ان کو وہاں پرنسپل بھی ایسا چاہیے جو ہاتھ جوڑ کے ان کا ہر جائز ناجائز حکم بجا لائے اور اگلے سال اس کے صلے میں وہ بھی صدرِ پاکستان سے کوئی تمغہ حاصل کر سکے۔

یہ تو شروعات ہیں۔ “ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے” آگے آگے دیکھیے اس مملکتِ پاکستان کے ساتھ ہوتا ہے کیا۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News