جمعه,  26 جولائی 2024ء
عالم اسلام کا اتحاد اور یکجہتی وقت کی ضرورت!

عالم اسلام کے اتحاد اور یکجہتی موجودہ اور مستقبل کے حالات کے تناظر میں ایک ضرورت اور وقت کا تقاضہ بھی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں اقوام عالم کے ترجیحات بدلتے رہتے ہیں۔ کمزور کو طاقتور اور طاقتور مزید طاقتور بننے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں ۔ کوئی کسی کو مغلوب کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کوئی غالب کو مغلوب ۔ جو موقع کی مناسبت سے پورا پورا فائدہ اٹھانے میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔ اس کا سکہ چلتا ہے۔ اور کمزور ممالک اسکے دوستی کواپنا فخر سمجھتے ہیں۔ چاہے وہ انتہائی نچلی سطح تک طاقتور کی ہر جائز اور ناجائز خواہش کو پوری کیوں نہ کرتے ہو ں۔ اس کو دوسرے لفظوں میں کاروبار حیات اور خواہشات کی تکمیل کھا جاتا ہے۔ چاہے وہ قومی سطح پر ہو یا انفرادی سطح پر۔۔۔ رابطہ عالم اسلامی نے سعودی عرب میں پورے عالم اسلام کے جید علماء و مشائخ کے اجلاس کا انعقاد کیا ہے۔ جسمیں بلا تخصیص گروہ فرقہ یا مسلک کے ہر مکتبہ فکر کے اعلیٰ ترین عالمی شہرت یافتہ شخصیات، علماء اور مفکرین کو دعوت دی گئی ہے۔ جس کو تمام عالم اسلام کی یکجہتی و اتحاد کے لئے بہترین آغاز کہا جا سکتا ہے۔ جو رابطہ عالم اسلامی کا موجودہ حالات میں فرض بھی بنتا ہے۔ کیونکہ پوری دنیا میں واحد اسلامی ممالک ہی میں اتحاد کا فقدان واضح نظر آرہا تھا۔

عالم اسلام کے اتحاد اور یکجہتی کی کوشش ایکبار پاکستان کے سابقہ وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو نے بھی کی تھی۔ جسمیں پورے عالم اسلامی کے سربراہوں نے شرکت کرکے اعلامیہ جاری کیا تھا کہ اسلامی ممالک اپنی مشترکہ معاشی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے پاکستان میں اسلامی بنک قائم کرینگے۔ جس کا ہیڈ کوارٹر کراچی ہوگا۔ مشترکہ فنڈ سے اسکے لئے بلڈنگ کی بنیاد رکھ کر آغاز کیا گیا۔ اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کے وزیراعظم نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا بھی اعلان کیا۔ اس عالم اسلام کے اتحاد کو تیسری دنیا کا نام دیکر الگ شناخت کی بنیاد رکھی گئی۔ جس میں سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل، لیبیا کے کرنل قذافی ، سوئکارنو، مصر کے انوار سادات سر فہرست تھے۔ ایران کے شہنشاہ رضا پہلوی نے بھی پورا پورا ساتھ دیا تھا۔

مسلمانوں کی بد قسمتی اور یہود و ہنود کی سازشیں بھی ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ جنھیں مسلم دنیا کے عظیم رہنماؤں کے خلاف منظم طریقے سے اس وقت کے سپر پاور کی آشیرباد حاصل تھی۔ کیونکہ ان کو ڈر اور خوف تھا کہ اگر یہ اتحاد برقرار رہا تو اسلامی دنیا دو سپر پاورز کے بالمقابل تیسری دنیا کی ایک علیحدہ سپر پاور بن جائیگی ۔ جو تیل و گیس اور معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ جن میں سے زیادہ تر ملک امریکہ کے زیر اثر تھے۔ جیسا کہ آج ۔۔۔۔

امریکہ، یورپی ممالک اور یہود و ہنود کو اسلامی ممالک میں اپنی طاقت اور اثرورسوخ کا سورج ڈوبتا ہوا نظر آنے لگا۔ جن کے معدنی وسائل پر انکی معیشت کا دارومدار تھا۔
جبکہ دوسری سرد جنگ روس اور امریکہ کے مابین زوروں پر تھی۔۔دونوں سپر طاقتیں ایک دوسرے پر ہر میدان میں سبقت حاصل کرنے کی ہر ممکن کوششوں میں مصروف تھے۔ ایک طرف معیشت اور دوسری طرف دفاعی لحاظ سے ، تیسری طرف چین ایک ایسے دور سے گذر رہا تھا جس کو معاشی اور دفاعی دونوں صورتوں میں دوست ممالک کی ضرورت تھی۔ تاکہ وہ اپنا اثرو رسوخ بڑھا کر تجارتی میدان میں برتری حاصل کرکے اپنی معیشت کو اس مقام پر پہنچا دے جو مستقبل میں چین کی دوستی و تجارتی، معاشی اور دفاعی ضروریات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ بن پائے۔ چین نے کمال دانشمندی و عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی محاذ پر جنگ سے ہر۔ممکن گریز کیا ۔ جو انکی لیڈرشپ کےمنضوبے چین کے مستقبل کیلئے دور رس اثرات مرتب کرنے کی ترجیحانہ پالیسی تھی۔ جس کا آج پوری طرح فائدہ چین کو ہر شعبہ زندگی میں ہو رہا ہے۔ چاہے وہ معاشی استحکام کی صورت ہو یا دفاعی یا تجارتی اور اپنا حلقہ احباب بڑھانے کا شعبہ۔اج وہ دنیا کی سیاست میں ایک سپر پاور کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ جس کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر ہورہا ہے۔

اسکے بر عکس روس اور امریکہ دونوں سپریمیسی کے زعم میں دوسرے چھوٹے چھوٹے کمزور پٹھو ممالک میں جنگ و جدل کے حالات پیدا کرکے لڑائی میں مصروف رہے۔ چاہے وہ ویتنام ہو یا اریٹیریا ۔ کسی جگہ ایک کا پلڑا بھاری ہوتا تھا اور کسی جگہ دوسرے کا۔ جن ممالک میں جنگ کی ضرورت نہیں پڑتی تھی وہاں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور چالوں سے کام لیکر عدم استحکام اور انتشار و معاشی عدم استحکام کے حالات پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ دنیا امپریلزم اور سوشلزم کے دو گروپوں میں تقسیم تھی۔

امریکہ اور روس نے جب اسلامی بلاک کی مجموعی اتحادی صورتحال کا جائزہ لیا تو امریکہ نے اسلامی اتحاد کے مرکزی کرداروں کے خلاف کام شروع کرکے ان کو ہٹانے اور دنیا سے ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ جن میں سے ذوالفقار علی بھٹو کو ناکردہ گناہ کی سزا دیتے ہوئے پھانسی دلوادی۔ شاہ فیصل کو اپنے بھتیجے سے گولی مرواکر شہید کروادیا ۔ انوار السادات کو پریڈ گراؤنڈ میں گولی مرواکر شہید کیا گیا۔ جناب سوئکارنو کو بھی انجام تک پہنچا دیا۔ شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی جنھیں کسی دور میں امریکی پولیس مین کہا جاتا تھا۔ اسکو در بدر کراکر امریکہ نے سیاسی پناہ دینے سے انکار کیا ۔ اور کرنل قذافی کو دوستی کی اڑ میں بد ترین انجام سے دو چار کیا ۔ اسی دوران پاکستان ایٹمی طاقت بنا۔ جس کو سعودی عرب اور دوسری تمام اسلامی ممالک کی مکمل سپورٹ حاصل رہی۔ لیکن دیر سے۔۔ اور اس اسلامی بینگ کی بلڈنگ آج تک کراچی میں تشنہ بلب کھڑی نظر آرہی ہے ۔

حماس نے پچھلے سال اسرائیل کے خلاف جدو جہد کا آغاز کیا تو بہت سے دفاعی اور معاشی تجزیہ کار اس کو خود کشی اور حماقت سمجھتے اور کہتے تھے۔ اگرچہ بظاہر ایسا ہی لگتا تھا۔ جو لوگ اسرائیل اور حماس کی دفاعی صلاحیتوں سے واقف تھے۔ انکو ایسا ہی نظر آرہا تھا کہ دونوں کی میدان جنگ میں ہتھیاروں اور افرادی قوت اور فضائی طاقت کا کوئی جوڑ نہیں کہ کہاں اسرائیل کی تربیت یافتہ اور ہر قسم کے جدید اسلحہ سے لیس لاکھوں تعداد کی فوج اور کہاں حماس کی میٹھی بھر بے سروساماں چند ہزار مجاہد۔۔ جو زمین اور آسمان کا فرق محسوس ہوتا تھا۔ لیکن دنیا آج انگشت بدندان ہے کہ چند ہزار نفوس پر مشتمل مجاہدین نے کئ مہینوں سے اسرائیلی فوج کو آگے بڑھنے سے روکے رکھا ہے۔ اگرچہ فلسطینی بچوں، بوڑھوں، خواتین اور مردوں کا جانی نقصان حد سے زیادہ ہو رہا ہے۔لیکن وہ اپنی آزادی کی آخری جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ جس کا بین الاقوامی طور پر اجتماعی فائدہ فلسطینیوں کو ہو رہا ہے۔ کہ اج اسرائیل کے بہی خواہ یورپ، برطانیہ، آسٹریلیا اور امریکہ جو اسرائیل کے ساتھی اور حامی تھے دو واضح گروپس میں تقسیم ھو چکے ہیں۔ انکے اکٹر حامی اسرائیل کو دفاعی اور اخلاقی مدد فراہم کرنے سے انکاری اور فلسطین کی حمایت کرنے لگے ہیں۔ جو فلسطین کیلئے نیک شگون اور اخلاقی فتح ہے۔

اکثر مسلم ممالک نے فلسطینیوں کی حمایت اور مدد جنگ کے آغاز میں نہیں کی۔ جسکا فائدہ فلسطین کو ہوا۔ کہ اسرائیلیوں کی مدد کرنے والے ملکوں میں پھوٹ پڑ گیا ۔ جبکہ اندرون خانہ اسلامی ملکوں کی ہمدردیاں اور حمایت فلسطینیوں کے ساتھ تھی۔ آہستہ آہستہ بتدریج مسلم ممالک جنگ میں شامل ہوتے گئے۔ جو آج اسرائیل کو چاروں طرف سے گھیرے میں لیکر اسکو سنبھلنے کا موقع نہیں مل رہا ہے۔ اسرائیل اپناوہ نعرہ بھول چکا ہے جو انکے وزیراعظم نیتن یاہو کے مطابق جنگ حماس کے خاتمے تک جاری رہیگی۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے دروازے اب بھی کھلے ہیں: حماس سربراہ

مجموعی طور پر مشرق وسطیٰ کے اکثرمسلم ممالک اسرائیل کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ اسرائیل اور اسکے اتحادی ملک امریکہ اور برطانیہ کو سمجھ ہی نہیں آرہی ہےکہ وہ اپنے ملک میں عوام کو اسرائیل کی حمایت کرنے پر کیسے راضی کریں جو فلسطین کے حق میں سراپا احتجاج ہیں اور اسرائیل کو شکست فاش سے کیسے بچائیں جس کا اندارہ پوری دنیا کو ہو چکا ہے۔ ان حالات میں ایک بارپھر سے اسلامی ممالک میں اتحاد قائم کرنے کیلئے تمام عالم اسلام کے مقتدر و معتبر دینی علماء و مشائخ کا یکجا ہونا اور مسلک و فرقہ اورگروہی اختلافات کو بالائے طاق رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت تقاضہ ہے۔ جس کی نئے سرے سے اجتماعی طور پر اتحاد و یگانگت کی کوششوں کو محسوس کیا گیا ہے ۔ عالم اسلام سعودی عرب کو اسلام کا رہنما سمجھتی ہے۔ اور عالم اسلام کا مرکز بھی ہے۔۔جسکی حفاظت ہر ایک اسلامی ملک اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے۔ اور وقت آنے پر اسکا حق کما حقہ ادا بھی کرےگا۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News