شہریاریاں ۔۔ تحریر: شہریار خان
ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر حکومتوں کے خلاف تقریریں جھاڑنے والے وہ اینکرز جو صرف چند گھنٹے سکرین پر آتے ہیں لاکھوں روپے تنخواہیں لیتے ہیں ۔ رپورٹرز کی خبروں پر کئی گھنٹے تجزیہ جھاڑنے والے یہ فنکار جو بھی بندر تماشا لگاتے ہیں اس سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں ہوتا لیکن پھر بھی مار ان اینکرز کو نہیںبلکہ فیلڈ میں رہنے والے رپورٹر یا کیمرہ مین کو پڑتی ہے، لوگ انہیں لفافہ صحافی کہتے ہیں ۔
خدا کے لیے کوئی ان سیاسی کارکنوں کو بتائے ان ورکنگ جرنلسٹ کی اکثریت تنخواہوں کو ترستی ہے، کئی میڈیا ہاؤسز بے گار کیمپ کا روپ دھار چکے ہیں۔ تنخواہوں میں تاخیر ہونے پر بھی احتجاج کرنے یا آواز اٹھانے کی اجازت نہیں، بیمار ہونے پر چھٹی بھی نہیں ملتی، خدانخواستہ کسی ایکسیڈنٹ میں ٹانگ ٹوٹ جائے تو فراغت کا پروانہ پکڑا دیا جاتا ہے کہ کہیں علاج معالجہ کے لیے پیسے ہی نہ مانگ لے۔لاکھوں کروڑوں کے اشتہارات لینے والے ادارے کے مالکان سال میں کئی ممالک کا دورہ کرتے ہیں مگر اپنے ورکر تنخواہ مانگیں تو انہیں دورہ پڑ جاتا ہے۔آپس میں لڑنے والے مالکان کا تنخواہیں نہ بڑھانے پر اتفاق ہے۔ یہ اپنے ایجنڈوں کے تحت کسی کی بھی پگڑی اچھال دیں تو اس کے عوض ملنے والے نوٹ گنتے ہیں مگر اس سے کارکن کتنے خطرات کا شکار ہوتے ہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔
پہلے صرف ایک میڈیا گروپ حکومت بنانے اور گرانے کا سہرا اپنے سر سجاتا تھا آج اس ریس میں کئی گھوڑے شامل ہو چکے ہیں۔ حکومتوں کے ساتھ ساتھ ، سیاسی جماعتیں اور ان کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے کارپوریٹ ادارے اپنے کئی عیب اخباری اور ٹی وی چینل اشتہارات میں چھپانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ہم سب سیاسی جماعتوں کو ، حکمرانوں کو، ینگ ڈاکٹرز کو، وکیلوں کو ۔۔۔ غرض سب کو برا بھلا کہتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ آج کل میڈیا میں جو تماشا ہو رہا ہے کیا یہ صحافت ہے؟۔ کہیں کوئی ڈاکٹر، کوئی وکیل، کوئی دندان ساز، کوئی فیشن ڈیزائنر، کوئی اداکار، کوئی چاپلوس سیاست دان ٹی وی پر پروگرام کر رہا ہے تو کہیں کوئی مولوی صاحب ہمیں دین کے بجائے دنیاوی معاملات میں الجھانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
سب کے اپنے ایجنڈے ہیں، سب کسی دوڑ میں لگے ہیں۔۔ اس دوڑ میں کوئی ورکر کچلا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟۔ ایک دو روز اس کی یاد میں پروگرام ہوتے ہیں پھر سب بھول جاتے ہیں۔ کہیں قتل ہونے والا صحافی یا میڈیا ورکر تو دنیا سے چلا جاتا ہے مگر اس کے گھر والے زندگی کے دکھوں کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ان کا کوئی خیال رکھنے والا نہیں ہوتا، اس کے بچوں کے سر پہ ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ کاش کوئی ان میڈیا ہاؤسز کے بڑے بڑے مالکان کو ہاتھ جوڑ کر بتائے ان کی پیسہ کمانے کی دوڑ میں صحافت اور صحافی بہت دور ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔ خداکے لیے اب بس کریں۔
ایک ہی دفتر کی چھت تلے مختلف ماحول ہوتا ہے۔۔ ایک وہ ہیں جو چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر رہتے ہیں یعنی رپورٹرز، آٹھ گھنٹے کی شفٹ کہنے کو ہوتی ہے مگر محنت پورے دن کے برابر ہوتی ہے یعنی کیمرہ مین، ایک فون سامنے رکھے بیٹھا اسائنمنٹ ڈیسک تمام جگہوں پر ٹیموں کو بھجوانے، ٹیموں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے، ان کے ٹکر، عدم موجودگی میں خبر بنا کر ڈالنے والا، ہیڈ آفس سے رابطہ کرنے والا اسائنمنٹ ایڈیٹر، سارا دن کمپیوٹر کی سکرین کے سامنے سر جھکائے بیٹھا، رپورٹرز کی خبر کو دلچسپ رپورٹ میں بدلنے والا کاپی ایڈیٹر ۔۔ سب کے سب اپنے حصے کی نوکری میں لگے رہتے ہیں۔ کئی مرتبہ اپنی ڈیوٹی کا وقت پورا ہونے پر بھی شفٹ میں کام کرنے والے متبادل نہ آنے پر ڈیوٹی مکمل کرتے ہیں۔
ان تمام مشقتیوں کی تمام دن کی یا اکثر پورے ہفتے یا مہینے کی محنت کے باوجود کوئی تعریفی کلمات نہیں سننے کو ملتے مگر کبھی کہیں کوئی بھول چوک ہو جائے تو فوری طور پر شوکاز نوٹس ضرور تیار ہو تا ہے۔۔ ایک غلطی پر، ایک لمحہ کی تاخیر سے ہنگامہ ہو سکتا ہے۔۔ طوفان آ جاتا ہے۔۔یہ چند ہزار روپے تنخواہ لینے والوں کی سانسیں بس اسی بھاگ دوڑ میں اٹکی ہوتی ہیں۔ انہیں ملازمت دینے سے پہلے تین تین انٹرویوز ہوتے ہیں ان کا تجربہ پوچھا جاتا ہے۔ پھر تنخواہ بھی کم سے کم رکھنے کی کوشش ہوتی ہے۔
دوسری جانب اسی چھت کے نیچے ایک ایسا طبقہ بھی ہے جس کا انٹرویو نہیں ہوتا، ان کے لیے “کہیں” سے فون آتا ہے۔۔ تجربہ کی ضرورت نہیں بس زبان گز بھر لمبی ہونی چاہئے۔۔۔ اور زبان بھی ایسی تیز جو کسی بھی باعزت کی عزت کو باآسانی تار تار کر دے۔۔ ان کی تنخواہیں ملین کے حساب سے ہوتی ہیں۔۔ انہیں گاڑی بھی دفتر دیتا ہے، ڈرائیور بھی اور پٹرول بھی۔۔ اس کا ادارے سے با وفا ہونا بھی شرط نہیں ۔۔ کبھی بھی کسی دوسرے چینل پر چلے جائیں گے اور ان کے ساتھ ان کی پوری ٹیم بھی ہو گی۔۔ یہ تین سے چار روز کام کریں گے اور صرف ڈیڑھ سے دو گھنٹے کا کام کر کے تھک جائیں گے۔ انہیں سو خون بھی معاف ہوتے ہیں، یہ اس چوبیس گھنٹے کے ملازم رپورٹر سے اس کی خبر کی تفصیل لے کر تجزیہ دیتے ہیں مگر رپورٹر کو پروگرام میں بٹھانے میں ان کو تکلیف ہوتی ہے۔یہ سیاسی جماعتوں کے بھی لاڈلے ہوتے ہیں اور ٹی وی ناظرین کے بھی۔۔ وہ ان ہی لوگوں کو صحافی سمجھ کر ان کے ہر کام پر صحافیوں کو گالیاں دیتے ہیں۔۔
تمام سیاستدانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ معاملات کو بنا کر رکھیں۔۔ یہ سیاستدانوں کی جائیدادوں پر نظر رکھتے ہیں ان سے رسیدیں مانگتے ہیں مگر اپنی ٹوٹی پھوٹی موٹر سائیکل سے لینڈ کروزر یا ذاتی جہاز تک کی رسید نہیں دکھا سکتے۔۔ کرایہ کے مکان میں رہنے والے اچانک ڈیفینس کے بڑے بڑے محلوں میں چلے جائیں اور ہر شہر میں ہل سٹیشن پہ ذاتی مکان یا فارم ہاؤس ہونے کے باوجود ان کا دامن صاف ہوتا ہے۔۔ ان سے کوئی سوال نہیں پوچھ سکتا۔یہ پراپرٹی ٹائیکون کے ساتھ طے شدہ پروگرام کریں تو بھی ٹھیک ہے۔ یہ کسی ایجنڈا پر چلیں تو بھی ٹھیک ہیں۔ یہ کسی سیاسی جماعت کے کارندے بن جائیں تو بھی بالکل درست ۔۔ یہ من پسند مہمان بھی بلائیں، دنیا کی سیریں بھی کسی کے خرچے پر کریں تو کچھ نہیں ہوتا۔۔
ایک ایسے سیاستدان نما اینکر کو ایک چینل نے جھوٹی خبر چلانے پر آف ائیر کیا تو اس نے اس کا الزام ایک سیاسی جماعت پر دھر دیا۔ اسے فوری طور پر دوسرے چینل نے ملازمت دے دی۔۔ کہا یہاں ہمارے پاس غلط خبریں چلانے کی گنجائش زیادہ ہے۔ ایک ایسے ہی اینکر جو سیاستدانوں کو اخلاقیات کا درس دے رہے ہوتے ہیں وہ اپنے مرے ہوئے والد کا انگوٹھا لگا کر اپنے بہن بھائیوں کی جائیداد ہتھیاتے پکڑا گیا تھا۔
ایک ایسا شریف اینکر بھی ہے جو دنیا کو قیامت سے ڈراتا ہے مگر وہ سرکاری ٹی وی پر ایک ہی وقت میں ایم ڈی اور چیئرمین دونوں تنخواہ لیتا رہا اور لمبی مدت کی تنخواہ ایڈوانس میں لے لی اور کنٹریکٹ ختم ہونے کے باوجود وہ پیسے واپس نہیں کیے۔۔ پھر بھی یہ چند ہزار لینے والے مشقتی تو ٹھہرے لفافے اور یہ خائن لوگ جو ہر چینل پر بیٹھ کر ایک ہی جیسا جھوٹ بولتے ہیں وہ سب ایماندار اور قابل تکریم؟۔۔ کبھی وقت ملے تو سوچیئے گا ضرور۔۔