اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) ایک زمانے میں نیوزی لینڈ کی سرزمین پر ایک دیوہیکل پرندہ رہتا تھا جسے موآ کہا جاتا ہے۔ یہ پرندہ نہ صرف بےحد بڑا تھا بلکہ اُڑنے سے بھی قاصر تھا، اور تقریباً دس فٹ تک لمبا ہوتا تھا۔ انسانوں کی آمد کے بعد یہ پرندہ تقریباً 600 سال قبل ختم ہوگیا۔ اب امریکہ کی ایک بایوٹیک کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس ناپید پرندے کو دوبارہ زندہ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔
بین الاقوامی زرائع ابلاغ کے مطابق ٹیکساس میں قائم کولوسل بایوسائنسز نامی کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ جدید جینیاتی تحقیق اور انجینئرنگ کے ذریعے جنوبی جزیرے کے جائنٹ ’موآ‘ پرندے کو دوبارہ دنیا میں لانے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس کمپنی نے اس سے پہلے بھی ڈائرو وولف، وُولی میمتھ، ڈوڈو اور تھائلیسین جیسے ناپید جانوروں کو واپس لانے کی کوششیں شروع کی تھیں۔
موآ ایک طاقتور، طویل گردن والا، دیوہیکل پرندہ تھا جو نیوزی لینڈ میں پایا جاتا تھا۔ اس کی اونچائی تین میٹر تک ہوتی تھی اور خیال کیا جاتا ہے کہ خطرے کی صورت میں یہ اپنے پاؤں کے ذریعے دفاع کرتا تھا۔ اس پرندے کا خاتمہ انسانوں کی آمد کے بعد ہوا، جب ماحولیاتی تبدیلی اور شکار نے اس کے وجود کو ختم کردیا۔
اس منصوبے میں نیوزی لینڈ کی معروف یونیورسٹی کینٹربری کے نگائی تاہو ریسرچ سینٹر کے ساتھ تعاون کیا جا رہا ہے، جو کہ جنوبی نیوزی لینڈ کی مقامی ماؤری قوم کی نمائندگی کرتا ہے۔ منصوبے کے تحت موآ کی مختلف اقسام کے ڈی این اے کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ جائنٹ موآ کی جینیاتی خصوصیات کو سمجھا جا سکے۔
بڑے سرمایہ کار اور معروف شخصیات کی دلچسپی
یہ کمپنی اب تک 435 ملین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری حاصل کر چکی ہے، اور اس منصوبے میں مشہور فلم ساز پیٹر جیکسن بھی شامل ہیں، جن کے پاس موآ کے قدیم ہڈیوں کا ایک بڑا ذاتی ذخیرہ موجود ہے۔
اگرچہ بعض ماہرین اس منصوبے کو دلچسپ اور سائنسی لحاظ سے قابلِ قدر سمجھتے ہیں، لیکن کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس طرح کے منصوبے اصل ناپید جانداروں کو واپس نہیں لا سکتے بلکہ ان سے ملتے جلتے جینیاتی ہائبرڈ تیار کیے جاتے ہیں۔ کچھ ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس قسم کے تجربات لوگوں کو یہ غلط فہمی دے سکتے ہیں کہ ہم ناپید جانداروں کو باآسانی واپس لا سکتے ہیں، جو کہ تحفظِ ماحول کے لیے نقصان دہ سوچ ہے۔
کینیڈا کی ویسٹرن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پرندوں کے ماہر اسکاٹ میکڈوگل-شیکلٹن کا کہنا ہے کہ موآ کی باقیات جیسے ہڈیاں، انڈے کے چھلکے، اور پر وغیرہ اب بھی موجود ہیں، اس لیے تحقیق کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا میں پہلے سے موجود سینکڑوں نایاب اور معدومی کے خطرے سے دوچار پرندوں کی بقا کے لیے کام کرنا زیادہ ضروری ہے۔
عملی اقدامات اور ماحول کی بحالی
کولوسل بایوسائنسز کا کہنا ہے کہ وہ اس منصوبے کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ کے ان علاقوں میں ماحول کی بحالی کا بھی کام کرے گی جہاں کبھی موآ پرندے رہا کرتے تھے۔ اس کے ذریعے نہ صرف موآ کے لیے ممکنہ مسکن تیار ہوگا بلکہ وہاں کے دیگر مقامی جانوروں اور پودوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
کیا واقعی ناپید مخلوق واپس آسکتی ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ پرندوں کی جینیاتی تبدیلی اور دوبارہ جنم دینے کا عمل ممالیہ جانوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ پرندے انڈے دیتے ہیں، اور یہ ایک اضافی سائنسی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس کے باوجود، کچھ سائنسدان اسے ایک ایسا قدم سمجھتے ہیں جو انسانوں کو یہ باور کرائے گا کہ ہم نے ماضی میں کتنا کچھ کھو دیا ہے، اور شاید یہی احساس ہمیں موجودہ نسلوں کی حفاظت پر سنجیدگی سے توجہ دینے پر مجبور کرے۔
مزید پڑھیں: ترکیہ میں عیدالاضحیٰ کے پہلے روز جانوروں کو ذبح کرنے کے دوران 14 ہزار افراد زخمی
موآ کی واپسی کا منصوبہ سائنس، ماحولیات، اخلاقیات اور مستقبل کی ٹیکنالوجی کے پیچیدہ سوالات کو جنم دیتا ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کیا انسان واقعی کبھی کسی ناپید مخلوق کو واپس لا سکے گا۔