بیجنگ(روشن پاکستان نیوز) چین کے سائنسدانوں نے تولیدی سائنس میں ایک حیران کن کامیابی حاصل کر لی ہے۔ شنگھائی جیاؤ ٹونگ یونیورسٹی کے محققین نے ایسے صحت مند چوہے تیار کیے ہیں جو دو نر والدین سے پیدا ہوئے اور بڑے ہو کر خود بھی بچے پیدا کرنے کے قابل ہوئے۔
تحقیق کے مطابق، سائنسدانوں نے ایک مادہ چوہے کے انڈے سے نیوکلیس نکال کر اس میں دو مختلف نر چوہوں کے تولیدی خلیات داخل کیے۔ پھر جدید جین ایڈیٹنگ تکنیکوں کی مدد سے کلیوں کے ڈی این اے کو دوبارہ پروگرام کیا گیا تاکہ ایک مکمل جنین یا ایمبریو کی تشکیل ممکن ہو سکے۔ اس عمل کو ’اینڈروجنیسس‘ کہا جاتا ہے۔
259 جنین کو surrogate مادہ چوہیوں میں منتقل کیا گیا، جن میں سے صرف دو زندہ بچ سکے اور مکمل طور پر صحت مند ہو کر جوان ہوئے۔ یہ دونوں نر چوہے بعد میں مادہ چوہیوں سے ملاپ کے بعد خود بھی بچے پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔
سائنس کی بڑی پیش رفت اور چیلنجز
یہ تحقیق نہ صرف یہ واضح کرتی ہے کہ ایک ہی جنس کے دو والدین سے نئی زندگی کی تشکیل کیوں مشکل رہی ہے، بلکہ یہ جینیاتی نقش پذیری یا ’جینومک امپرنٹنگ‘ کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہے، وہ حیاتیاتی عمل جس میں ماں یا باپ سے ملنے والے جین مختلف طریقے سے کام کرتے ہیں۔
تحقیق کا خلاصہ سائنسی جریدے پی این اے ایس میں 25 جون کو شائع ہوا، جس میں سائنسدانوں نے کہا، ’ہم نے ایسے نر چوہے تیار کیے ہیں جو صرف نر جینیاتی مواد سے پیدا ہوئے اور بعد میں بچے پیدا کرنے کے قابل تھے۔ یہ تجربہ اس مفروضے کی تصدیق کرتا ہے کہ جینیاتی نقش پذیری، یک طرفہ تولید (یونی پیرینٹل پروڈکشن) میں اصل رکاوٹ ہے۔‘
ماہرین کے مطابق یہ تحقیق ہم جنس پرست جوڑوں اور بانجھ پن کے مسائل سے دوچار افراد کے لیے امید کی ایک کرن ہو سکتی ہے، تاہم انسانوں پر اس عمل کا اطلاق فی الحال ممکن نہیں۔
کیونکہ اگر یہ طریقہ انسانوں پر آزمایا جائے تو پیدا ہونے والے بچے کے جینز میں ایک تیسرے فرد یعنی انڈہ عطیہ کرنے والی عورت کا مائٹوکونڈریا ڈی این اے بھی شامل ہوگا، جو ایک الگ جینیاتی وجود ہوتا ہے۔
اخلاقی اور سائنسی سوالات
سائنس کی اس کامیابی کے باوجود اخلاقی خدشات بھی سامنے آئے ہیں۔ جینیاتی تبدیلی، انسانی تولیدی حقوق اور متعدد سرروگیٹ خواتین کے استعمال جیسے نکات بحث کا موضوع بن رہے ہیں۔
سینزبری ویلکم سینٹر لندن کے محقق کرسٹوف گالیشے نے کہا، ’یہ تحقیق امید افزا ہے، مگر اسے انسانوں پر آزمانا فی الحال ناقابلِ تصور ہے۔ اس کے لیے انڈوں کی بڑی تعداد، بہت سی surrogate خواتین اور غیر معمولی سطح کی کامیابی درکار ہے۔‘
مزید پڑھیں: اسرائیلی حملوں میں مزید 3 ایرانی ایٹمی سائنسدان شہید، تعداد 9 ہو گئی
گو کہ یہ تحقیق سائنس کی دنیا میں ایک انقلابی قدم ہے، جو ہمیں مستقبل میں نئی جہتوں کی طرف لے جا سکتا ہے، لیکن موجودہ وقت میں یہ صرف سائنسی تجربات کی حد تک محدود ہے۔ انسانوں پر اس کا اطلاق کرنے سے پہلے نہ صرف سائنسی بلکہ اخلاقی سطح پر بھی بڑے سوالات کا سامنا ہوگا۔