اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) اپولو مشن کے دہائیوں پرانے اعداد و شمار میں اس بات کی نشاندہی ہوئی ہے کہ چاند پر اب تک انسان کی سوچ سے زیادہ زلزلے آ چُکے ہیں۔
چاند پر آنے والے زلزلوں کے بارے میں ہونے والی یہ نشاندہی مستقبل میں چاند پر مزید انسانی مشن بھیجنے اور اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ نشاندہی ٹوکیو یونیورسٹی کے ایک ماہرِ فلکیات کیسوکے اونودیرا نے کی ہے جنہیں پرانے ریکارڈز میں چاند پر 20 ہزار زلزلے آنے کے شواہد ملے ہیں۔
اس حوالے سے اُنہوں نے ’جرنل آف جیو فزیکل ریسرچ: پلینٹس آن 5 جولائی‘ میں لکھا ہے کہ’چاند پر اب تک اس سے بھی زیادہ زلزلے آ چکے ہیں کیونکہ اب وہاں کی صورتحال زلزلوں کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ سازگار ہے‘۔
سائنس نیوز کی رپورٹ کے مطابقِ 1960ء سے 1970ء کی دہائی تک چاند پر اترنے والے اپولو مشن اپنے ساتھ دو قسم کے سیسمومیٹر لے کر گئے تھے جن میں سے ایک سیسمومیٹر چاند کی سطح کے اندر سے نکلنے والی لمبی سیسمک لہروں کی پیمائش کر سکتا ہے اور دوسرا چھوٹی سیسمک لہروں کا پتہ لگا سکتا ہے جو زیادہ توانائی لے کر جاتی ہیں یا چاند کی سطح کے قریب ہیں۔
ان سیسمومیٹرز نے 1960ء سے 1977ء تک چاند پر مسلسل آنے والے زلزلے سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کیا جس میں 13 ہزار سے زائد زلزلوں کا جائزہ لیا گیا لیکن سیسمومیٹر سے حاصل کردہ ڈیٹا جو چھوٹی سیسمک لہروں کا پتہ لگانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا اسے اس وقت چاند پر آنے والے زلزلوں سے متعلق معلومات اکٹھی کرنے کے لیے ناقابل استعمال سمجھا گیا۔
سیسمومیٹرز کے اعداد و شمار کو شکلوں میں بتایا جاتا ہے کیونکہ یہ سیسمومیٹرز زلزلے کی لہروں کی شکل کھینچتے ہیں اور ان شکلوں کی بنیاد پر قمری سائنسدان زلزلے کی ابتداء کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: چاند پر بین الاقوامی اسٹیشن کیلئے روس اور چین میں معاہدہ
اس لیے اس وقت کے قمری سائنسدانوں کو بیٹھ کر سیسمومیٹرز سے سیسمک ڈیٹا کو الگ کرنا پڑا جسے اُنہوں نے زیادہ توجہ نہیں دی لیکن گزشتہ سال اس ڈیٹا کا کیسوکے اونودیرا باغور جائزہ لیا اور چاند پر اب تک مزید 22 ہزار زلزلوں کے آنے کی نشاندہی کی جس کے بعد اب تک چاند پر آنے والے زلزلوں کی تعداد 35 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔
واضح رہے کہ ناسا 2025 میں سیسمومیٹروں کے ایک جوڑے کو چاند پر روانہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے اس لیے سیاروں کے ماہرین اور قمری سائنس دانوں کے پاس مستقبل میں کام کرنے کے لیے مزید بھی ڈیٹا ہوگا۔