هفته,  23 نومبر 2024ء
مولانا فضل الرحمان سے متعلق تہلکہ خیز انکشافات منظر عام پر

اسلام آباد:(روشن پاکستان نیوز) سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ کمشنر راولپنڈی کا انکشاف صرف ڈرامہ ہے،اس کا ڈائریکٹر کوئی بھی ہوسکتا ہے، اس کی تحقیقات کرائیں کرائیں ان کی دوستیاں کس کے ساتھ تھیں؟ ان کے پاس جائیداد کہاں سے آئی؟ وہ کتنے زبردست تھے، کتنے برے تھے؟ کہا جا رہا ہے کہ ان کی دوستیاں اور وابسطگیاں تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ بڑے کھلے عام ان کی تصویریں بھی آ رہی ہیں۔

نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انکی” فائل “ بھی کافی بڑی ہو گئی ہے جو ترکیہ تک چلی گئی ہے۔ سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے کہا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ (ن) لیگ نے ان کو لانچ کر دیا ہو، پیسے دے دیے ہوں۔ یہاں سارا کھیل پیسے کا ہے۔ یہاں سب کے سیلف انٹرسٹ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دس بارہ دن ان کی ریٹائرمنٹ میں ہیںم بھٹو صاحب کی شہادت کو پچاس سال تو ہوگئے ہیں، ہم تو اس کی ابھی تک تحقیقات ہی کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس پی آئی ڈی سی کراچی میں بہت بڑی اربوں کھربوں کی عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ اس کو ماشااللہ سے چھیالیس سال ہوگئے ہیں، تو ٹھیک ہے پروب کریں۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ جو کمشنر صاحب نے کہا ہے کہ وہ بھی پروب کر لیتے ہیں اور جو کمشنر صاحب ہیں ان کو بھی پروب کر لیتے ہیں۔ نکل جائے گا ایک دو الیکشن۔ فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ ان کو کانٹوں کا تاج کوئی پہنا نہیں رہا۔ (ن) لیگ کو کانٹوں کے تاج پہ سب مل کر بٹھا رہے ہیں۔ تو فرق ہوتا ہے۔ کانٹوں کے تاج کو پہننے اوربیٹھنے میں بڑا فرق ہے۔ تو چیخیں تو نکلیں گی۔ اس وقت جب ہم آپ کے پروگرام میں بات کر رہے ہیں، تو مخلوط حکومت ہے۔ پی ڈی ایم 2 ہے۔ زرداری صاحب جو ہیں یا جو پیپلزپارٹی ہے آئینی عہدے لے لے گی اور آئینی عہدے لینے کے بعد شاید اتنی سے پرسنٹ ایج ان کو سمجھ میں آجائے کہ سال ڈیڑھ سال چل جائے گی تو وزارتیں لینے میں کسی کو کوئی قباحت نہیں ہوگی۔

کمشنر راولپنڈی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کوئی نارمل آدمی دس دن بعد یہ کیسے قبول کر سکتا ہے۔ دس منٹ بعد ہوتا، دس گھنٹے بعد ہوتا تب بھی مان لیتے، آپ دس دن بعد کہہ رہے ہیں کہ میرا ضمیر جاگ گیا ہے۔ ہمارے ملک میں مسئلہ یہ ہے کہ چاہے وہ آدمی ہو یا عورتیں ہوں، ہر بار کہتی ہیں کہ خودکشی کر رہی ہوں ، کرتی کوئی نہیں ہے۔ ضمیر کے بوجھ میں الیکشن کے اگلے دن۔ اور آپ مرجاتے تو ہم آپ کی فاتحہ پڑھنے اور جنازہ اٹھانے آ جاتے۔ اور کہتے بڑا اچھا آدمی تھا۔ایک آدمی دس دن بعد ریٹائر ہو رہا ہے۔ اس پر تو خود سو سوال ہیں۔ اس کے پاس اتنی جائیداد کہاں سے آئی؟ اس کی پراپرٹی کی فائلیں کہاں سے آئیں؟دس دن بعد ریٹائر ہو رہا اور ضمیر دس دن بعد جا گ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نوگھنٹے بعد ہوتے، دس گھنٹے بعد ہوتے، اگلے دن بھی ہوتے، شاید دوسرے دن بھی ہوتے، بیوی، بچوں نے کوئی ضمیر جگا دیا ہے، اکثر یہ ہوتا ہے کہ آپ بے ضمیر ہوتے گھر والے ضمیر جگا دیتے ہیں۔ دس دن بعد اور دس دن پہلے ریٹائرمنٹ سے ، یہ سب نان سینس ہے۔ تو پھر آپ نے مولانا صاحب کا بھی کھیل دیکھ لیا تو مولانا صاحب کا کھیل یہ ہے کہ ان کو ان کی وش لسٹ کے حساب سے رزلٹ نہیں آئے ہیں۔وہ بھی جلد مان جائیں گے،ان کی فائل بھی کافی بڑی ہوگئی ہے جو اب ترکیہ تک چلی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ کہ سارے جو ایکسپائر لیڈر ہیں وہ ایک کنٹینر کے اوپر ہوں گے یا اس کے اندر بند ہوں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اینکر سے کہا کہ آپ ویک اینڈ پر مری گئیں، آپ سمجھیں کہ آپ مری جمہوری گاڑی میں بیٹھ کر گئیں۔ واپسی پر رات کے تین بج گئے۔پٹرول ختم ہو گیا۔ مولانا کی ٹیکسی آ کر کھڑی ہو گئی۔

انہوں نے کہا کہ بھئی میں آپ کی جگہ کا فائدہ اٹھاؤں گا، آپ مجبور ہیں آپ کو پانچ سو روپے کرائے کی جگہ پانچ ہزار کرایہ دینا ہے۔آپ نے کہا کہ میں اتنی مجبور ہوں، سات ہزار لے لو۔اس نے کہاآپ سات ہزار دینے کو تیار ہو، پندرہ ہزار دے دو۔ جمہوری گاڑی کے کرائے کی سیٹنگ ہو جائے گی۔ جمہوری جنازہ اس گاڑی میں چلنا شروع ہو جائے گا۔ اور تھوڑے دن بعد وہ پہاڑی سے گر جائے گی۔ پھر نئے الیکشن آئیں گے۔ نئی پوت آئے گی۔ نئی قوم دیکھے گی۔

نئے الیکشنوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ نیا معجزہ ہو گیا، ان کا تجزیہ ہے۔ اللہ کی مدد آ گئی۔ مخلوط حکومت چل گئی۔ آپس میں جھگڑے نہیں پڑیں گے۔ کیونکہ آپ ذرا سا دھکا دیں گے ، وہ ہلیں گے، تھوڑا چھوڑیں گے پھر کھینچ لیں گے تو اس پوزیشن میں سوا سال، ڈیڑھ سال بہت کوئی اللہ تعالی کی مدد آگئی تو پونے دو سال ہو جائے گا۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ادھر تک ہم جا رہے ہیں۔ صرف اچھی چیز اللہ کی طرف سے الیکشن میں یہ ہو گی کہ ایکسپائرڈ لیڈر چھٹ جائیں گے، رگنگ کم ہو گی،جمہوری نظام آجائے گا، پروگریسیو اورپروڈکٹیو پاکستان۔

مزید پڑھیں: فیض حمید کا نام غلطی سےزبان پر آیا، مولانا فضل الرحمان کی وضاحت

ازخود نوٹس لینے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ ہاتھ جوڑ کر گزارش کریں گے کہ اب کوئی نوٹس نہ لے۔پاکستان کے اندر بہت نوٹسز ہو چکے۔نسلا ٹاور کا بھی نوٹس ہونا چاہیے تھا۔ وہ گر گیا ، غریب سڑک پر آگئے۔ بھٹو صاحب بھی مر گئے۔ اس کا بھی اس وقت نوٹس لے لیتے۔عمران خان کی حکومت گرا دی رات کے بارہ بجے ، اس کا بھی نوٹس لے لیتے۔جب تحقیقات ہوں گی ہم اس وقت تو اوپر جا چکے ہوں گے۔

مارشل لا اور ایمرجنسی لگنے کے سوال پر فیصل واوڈا نے کہا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ آپ ہفتہ کا دن دیکھیں۔ اس کے اندر ایک بریکنگ نیوز دیکھیں۔ کچھ نے کھانا آرڈر کر دیا ہوگا۔ کچھ نے کافی اور کسی نے کشمیری چائے۔ آج ہم ڈسکس کر رہے ہیں، صبح اٹھ کرسب فزل آؤٹ ہو چکی ہوں گی، آدھی ہوں چکی ہوں گی۔ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ میرا تجزیہ خبر بن جاتی ہے۔

مزید خبریں