بدھ,  12 نومبر 2025ء
قومی اسمبلی سے 27 ویں آئینی ترمیم دوتہائی اکثریت سے منظور

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) قومی اسمبلی نے 27 ویں آئینی ترمیم دوتہائی اکثریت سے منظور کرلی۔ اس سے قبل سینیٹ نے اس بل کی منظوری دی تھی۔

اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیم کی تحریک پیش کی۔ ترمیم پر شق وار ووٹنگ کا عمل شروع ہوا، جس کے دوران اپوزیشن ارکان نے اسپیکر کے ڈائس کے سامنے دھرنا دے دیا۔

جے یو آئی کے ارکان نے ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ 27ویں آئینی ترمیم کی حمایت میں 231 ارکان نے ووٹ دیا، جبکہ مخالفت میں صرف 4 ووٹ آئے۔

وزیر قانون نے آج کے اجلاس میں یہ وضاحت بھی کی کہ آئینی ترمیم کے باوجود جسٹس یحییٰ آفریدی ہی ملک کے چیف جسٹس رہیں گے تاہم ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد یا ان کے عہدے خالی کرنے کی صورت میں وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ میں سے جو سینیئر چیف جسٹس ہوں گے وہی ملک کے چیف جسٹس کہلائیں گے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم شہبازشریف، صدر ن لیگ نواز شریف، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار بھی شریک ہوئے۔ پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے پر وزیراعظم شہبازشریف اور وفاقی وزرا نے نوازشریف کا استقبال کیا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی ایوان میں موجود ہیں، پیپلزپارٹی کےخورشیدشاہ کو ویل چیئر پر ایوان میں لایاگیا، خورشید شاہ علالت کے باعث اسپتال میں زیر علاج تھے۔

آرٹیکل 200 اور آرٹیکل 209 میں اہم آئینی ترامیم دو تہائی اکثریت سے منظور

قومی اسمبلی نے آرٹیکل 200 اور آرٹیکل 209 میں اہم آئینی ترامیم دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی ہیں۔ ان ترامیم کے تحت صدرِ مملکت کے ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلوں کے اختیارات محدود کر دیے گئے ہیں۔

ترمیم کے مطابق صدر مملکت اب صرف جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر ہی کسی ہائی کورٹ کے جج کا تبادلہ کر سکیں گے۔ اس عمل میں متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو جوڈیشل کمیشن کا رکن بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ججز کے تبادلے کا اختیار سپریم جوڈیشل کمیشن کو دینے کی ترمیم بھی منظور کر لی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی سے 27 ویں ترمیم کی منظوری کا معاملہ؛ نوازشریف اجلاس میں شرکت کریں گے

ترمیم کے تحت کسی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا تبادلہ نہیں کیا جا سکے گا۔ اس کے علاوہ ایسا کوئی جج جس کی سنیارٹی چیف جسٹس سے زیادہ ہو، اس کا تبادلہ بھی نہیں کیا جا سکے گا تاکہ عدالتی سنیارٹی متاثر نہ ہو۔ مزید یہ کہ جس جج کا تبادلہ کیا جائے گا، وہ دوسری عدالت کے چیف جسٹس سے سنیئر نہیں ہوگا۔

ترمیم کے مطابق اگر کوئی جج اپنے تبادلے سے انکار کرے تو اس کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جائے گا، اور کونسل 30 دن کے اندر اس ریفرنس پر فیصلہ دینے کی پابند ہوگی۔

اس دوران متعلقہ جج اپنی ذمہ داریاں انجام نہیں دے سکے گا۔ ریٹائرمنٹ کی صورت میں ججز کو مقررہ مدت تک پنشن اور مراعات دینے کی ترمیم بھی منظور کر لی گئی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی جج وفاقی آئینی عدالت میں تعیناتی سے انکار کرے تو اس کے خلاف بھی سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جائے گا، جہاں اسے وضاحت کا موقع فراہم کیا جائے گا۔

آرٹیکل 209 میں ترمیم کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کے نئے قواعد 60 دن کے اندر بنانے کی ہدایت دی گئی ہے۔ کونسل میں وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بطور اراکین شامل ہوں گے۔

اس کے علاوہ وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کے دو دو سنیئر ججز کو بھی کونسل کا رکن بنایا جائے گا، جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ یا چیف جسٹس آئینی عدالت دو سال کے لیے کسی جج کو نامزد کر سکیں گے۔

ترمیم کے مطابق ہائیکورٹ کے دو سنیئر ججز بھی جوڈیشل کونسل کا حصہ ہوں گے، اور سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس میں سے سنیئر ترین جج کو کونسل کا سربراہ مقرر کیا جائے گا۔

یہ ترامیم عدالتی نظام میں شفافیت اور اختیارات کے توازن کو یقینی بنانے کے لیے ایک اہم قدم قرار دی جا رہی ہیں۔

چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے کا نام تبدیل کر کے “کمانڈر آف ڈیفنس فورسز” رکھ دیا گیا 

قومی اسمبلی میں آرٹیکل 243 میں اہم آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی گئی ہے۔  آرٹیکل 243 کی شق 4 کے بعد سات نئی ترامیم شامل کی گئی ہیں۔ ترمیم کے تحت چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے کا نام تبدیل کر کے “کمانڈر آف ڈیفنس فورسز” رکھ دیا گیا ہے۔

اب صدرِ مملکت، وزیراعظم کی ایڈوائس پر، ایئر چیف اور نیول چیف کی طرح کمانڈر آف ڈیفنس فورسز کا تقرر کریں گے۔

ترمیم میں کہا گیا ہے کہ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ 27 نومبر 2025 سے ختم تصور کیا جائے گا۔ اسی طرح وزیراعظم، آرمی چیف کی سفارش پر کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کا تقرر کریں گے۔

یہ تقرری پاکستان آرمی کے ارکان میں سے ہوگی، اور اس عہدے کے لیے تنخواہ اور الاؤنسز وفاقی حکومت مقرر کرے گی۔

مزید یہ کہ وفاقی حکومت کسی فوجی افسر کو فیلڈ مارشل، ایئر مارشل یا ایڈمرل چیف کے رینک پر ترقی دے سکتی ہے۔ ایسے افسران کو ان کے عہدے کے مطابق یونیفارم، مراعات اور حیثیت تاحیات حاصل رہے گی۔

ترمیم میں واضح کیا گیا ہے کہ فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کو بطور قومی ہیرو تصور کیا جائے گا، اور انہیں آرٹیکل 47 کے تحت مقررہ طریقہ کار کے بغیر ہٹایا نہیں جا سکے گا۔

وفاقی حکومت ان اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران کی ذمہ داریاں اور امور کا تعین خود کرے گی۔ مزید یہ کہ فیلڈ مارشل کو آرٹیکل 248 کے تحت قانونی استثنیٰ حاصل ہوگا۔

مزید خبریں