اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) 27ویں آئینی ترمیم کا بل ہفتے کے روز سینیٹ میں پیش کر دیا گیا اور اسے قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھیج دیا گیا، کچھ دیر قبل ہی وفاقی کابینہ نے اس کے مسودے کی منظوری دی تھی۔
تقریباً دوپہر کو سوا ایک بجے کچھ تاخیر سے شروع ہونے والے سینیٹ اجلاس کا آغاز ہوا تو وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے سوال و جواب کے سیشن اور دیگر کارروائی معطل کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ اراکینِ سینیٹ کو ترمیم سے آگاہ کر سکیں۔
وزیرِ قانون نے بل ایوانِ بالا میں پیش کیا، جس پر چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے اسے قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کو جائزے اور غور کے لیے بھیج دیا۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ ایوان میں پیش کیا گیا بل قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس پر تفصیلی غور کرے، پارلیمانی روایت اور آئینی ترامیم کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کمیٹی کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین اور اراکین کو بھی مدعو کرے تاکہ وہ اس عمل میں شریک ہو سکیں اور اپنی تجاویز دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں کمیٹیاں مشترکہ اجلاس منعقد کر سکتی ہیں اور تفصیلی رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے گی۔
اجلاس کے دوران تحریکِ انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ جب اپوزیشن لیڈر کی نشست خالی ہے تو آئینی ترمیم پر بحث مناسب نہیں، حکومت اور اتحادی جماعتیں بل کو جلد بازی میں منظور کرانا چاہتی ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ میں یہ مشورہ دوں گا کہ اسے کمیٹی میں بھیجنے کے بجائے پورے سینیٹ کو ہی کمیٹی تصور کیا جائے تاکہ تمام اراکین بحث میں حصہ لے سکیں, اپوزیشن کو آج ہی بل کا مسودہ ملا ہے اور اب تک انہوں نے اسے پڑھا بھی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی ایسی چیز پر بحث نہیں کر سکتے جو ہم نے پڑھی ہی نہیں۔
وزیرِ قانون نے بتایا کہ بل میں 49 شقیں شامل ہیں، انہوں نے وضاحت کی کہ 3 بنیادی اور 2 ضمنی شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے، یعنی کل 5 نکات پر یہ ترمیم اثر انداز ہو گی۔
انہوں نے بتایا کہ 2006 میں دستخط شدہ چارٹر آف ڈیموکریسی میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق ہوا تھا، جو تمام صوبوں کے اعلیٰ ججوں پر مشتمل ہوگی اور صرف آئینی معاملات سنے گی، جب کہ عام عدالتیں باقی مقدمات کی سماعت جاری رکھیں گی۔
انہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم پر مشاورت کے دوران کچھ دوستوں نے کہا تھا کہ اتنی بڑی تبدیلی کی بجائے تجرباتی طور پر ’آئینی بینچ‘ بنائے جائیں، بعد میں ایسے بینچ بنائے گئے مگر جج زیادہ تر وقت انہی مقدمات میں مصروف رہتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ عدالت کے صرف 5 سے 6 فیصد کیسز اس کے 40 فیصد وقت پر قابض ہو جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں نے ان بینچوں کو ’عدالت کے اندر عدالت‘ قرار دیا اور دیگر اعتراضات بھی اٹھائے۔
مزید پڑھیں: گورنر خیبر پختونخوا نے وزیر اعلیٰ کا انتخاب غیر آئینی قرار دے دیا
وزیرِ قانون نے کہا کہ تمام سیاسی قوتوں سے مشاورت کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ وفاقی آئینی عدالت کا قیام پارلیمنٹ کے ذریعے کیا جائے، جو اس بل میں شامل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک اور اہم معاملہ ہائی کورٹ کے ججوں کی منتقلی سے متعلق ہے، 1973 کے آئین میں صدر کو وزیراعظم کے مشورے پر مشاورت کے بعد جج کی منتقلی کا اختیار دیا گیا تھا، اور 2 سال کے لیے بغیر رضامندی کے تبادلہ ممکن تھا، بعد میں 18ویں ترمیم میں یہ شق ختم کر دی گئی اور جج کی رضامندی لازم قرار دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ 26ویں ترمیم میں یہ شرط برقرار رہی مگر ایگزیکٹو کی مداخلت پر اعتراضات آئے، اب تجویز ہے کہ وزیراعظم کے مشورے والا حصہ ختم کر کے معاملہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کو دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں یہ حفاظتی شق بھی رکھی گئی ہے کہ چیف جسٹس سے زیادہ سینئر جج کو نہیں بھیجا جائے گا تاکہ تنازع نہ ہو۔
وزیرِ قانون نے بتایا کہ ایوانِ بالا (سینیٹ) کے انتخابات میں تاخیر کے باعث خیبرپختونخوا میں انتخابات ایک سال سے زیادہ مؤخر ہوئے، اس ضمن میں ایک نئی شق شامل کی گئی ہے تاکہ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب پر کوئی تنازع پیدا نہ ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی کابینہ کی 11 فیصد حد بڑھا کر 13 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے، کیونکہ پنجاب کے سوا باقی تمام صوبوں نے اس پر اعتراض کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے 5 صوبائی مشیر تھے، اب ان کی تعداد 7 کر دی گئی ہے۔
آرٹیکل 243 کے بارے میں بات کرتے ہوئے، جو کہتا ہے کہ وفاقی حکومت کو مسلح افواج پر اختیار حاصل ہوگا، انہوں نے کہا کہ اس میں نئی شقیں شامل کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ’فیلڈ مارشل‘ کا خطاب دیا گیا ہے، یہ ایک اعزازی خطاب ہے، کوئی عہدہ یا رینک نہیں، آرمی چیف ایک عہدہ ہے جس کی مدت 5 سال ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیلڈ مارشل، ایئر فورس کے مارشل یا نیوی کے ایڈمرل آف دی فلیٹ جیسے خطابات دنیا کے مختلف ممالک میں قومی ہیروز کو دیے جاتے ہیں، یہ خطابات تاحیات رہیں گے اور ان کی منسوخی کا اختیار وزیرِ اعظم کے پاس نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے پاس ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ 27 نومبر 2025 سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (سی جے سی ایس سی) کا عہدہ ختم کر دیا جائے گا، موجودہ سی جے سی ایس سی ہمارے ہیرو ہیں، ان کی مدت مکمل ہونے کے بعد یہ عہدہ ختم کیا جائے گا۔
وزیرِ قانون نے کہا کہ اس کے بعد کوئی نیا تقرر نہیں ہوگا، کیونکہ آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز کا کردار دیا جائے گا۔
بعد ازاں، سینیٹ میں 27ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودہ پیش کیا گیا، مسودہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا، مسودہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔
سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بل پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کو پیش کر دیتے ہیں، کمیٹی اپنا کام کرے گی، ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ کمیٹی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان بیٹھتے ہیں، بل کمیٹی کو جائے گا، کمیٹی میں دیگر ارکان کو بھی مدعو کریں گے جو کمیٹی کے رکن نہیں ہیں، اپوزیشن سے بحث کا آغاز کریں گے۔
سینیٹ و قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا مشترکہ اجلاس طلب
چیئرمین سینیٹ نے اپوزیشن سے کہا کہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوں، بل قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے سپرد کر دیتا ہوں۔
دوسری جانب، 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کا مشترکہ اجلاس آج ہی طلب کرلیا گیا۔
’جو بھی ترمیم ہو اس پر اتفاقِ رائے ہونا چاہیے‘
مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے سینیٹر علامہ راجا ناصر عباس کا کہنا تھا کہ ہمارا آئین جب بنا تھا اتفاقِ رائے سے بنا تھا، ایسی ترمیم کیوں لائیں جس پر سب کا اتفاقِ رائے نہیں ہے، جو بھی ترمیم ہو اس پر اتفاقِ رائے ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے آئینی ترامیم کروا رہے ہیں جیسے چوری کر رہے ہوں، ترامیم میں جتنی خوبصورت انگریزی ہو نقصان دہ ہے، عدلیہ کو معذور کر دیا گیا، ترامیم آئین کو متنازع کر دیں گی، یہ طریقہ کار درست نہیں ہے۔
راجا ناصر عباس جعفری نے مزید کہا کہ کیا جلد بازی ہے کہ دو دن ہیں، چاہے مہینے لگیں آئین میں ترامیم اتفاق رائے سے ہونی چاہئیں، آئین اور عمرانی معاہدہ آج دفن ہونے جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ آئینی ترمیم آئین پاکستان پر حملہ ہے، یہ ایوان عوامی نمائندہ نہیں ہے، فارم 47 کی پیداوار ہے۔











