اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز) وفاقی حکومت کی 27 ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودہ سامنے آگیا ، جس میں کونسے آرٹیکل میں ترامیم ہوگی سے متعلق تفصیلات بتائی گئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت کی 27 ویں آئینی ترمیم میں مجوزہ ترامیم کی تفصیلات سامنے آگئیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 160، شق 3 اے، آرٹیکل 213، آرٹیکل 243 اور آرٹیکل 191 اے سمیت متعدد دفعات میں تبدیلیوں کی تجاویز شامل ہیں۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ مجوزہ ترمیم ایک جامع آئینی پیکیج ہے جس کا مقصد عدلیہ، مالیاتی تقسیم کے نظام اور وفاق و صوبوں کے درمیان اختیارات کے توازن میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہے۔
یہ پیشرفت وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں ہونے والی ایک ملاقات کے بعد سامنے آئی، جس میں شہباز شریف نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور صدر آصف علی زرداری سے ترمیم کی منظوری کے لیے تعاون کی درخواست کی۔
مجوزہ ترامیم کی نمایاں شقیں
این ایف سی ایوارڈ کی آئینی ضمانت ختم (آرٹیکل 160 اور شق 3A)
ترمیم کے تحت صوبوں کے وفاقی محصولات میں حصے کی آئینی ضمانت ختم کرنے کی تجویز ہے، جو اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی خودمختاری کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں: امریکی صدر کے خطاب کے دوران اسرائیلی پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی
عدالتی ڈھانچے میں بڑی تبدیلی (آرٹیکل 191A اور نیا آرٹیکل)
نئے ڈھانچے کے تحت ایک آئینی عدالت یا سپریم کانسٹی ٹیوشنل کورٹ قائم کرنے کی تجویز ہے، جس سے آئینی تشریحات کا حتمی اختیار بدل جائے گا۔
مزید برآں، ہائی کورٹ کے ججز کی منتقلی سے متعلق آرٹیکل 200 میں بھی ترامیم شامل ہیں۔
اٹھارہویں ترمیم کے اختیارات کی واپسی (شیڈول 2 اور 3)
تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے شعبے دوبارہ وفاق کے ماتحت لانے کی تجویز دی گئی ہے۔
مسلح افواج کے اختیارات (آرٹیکل 243)
ترمیم میں مسلح افواج کی کمان مکمل طور پر وفاقی (سول) حکومت کے ماتحت رکھنے کی تجویز شامل ہے۔
چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا طریقہ کار (آرٹیکل 213)
چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے عمل میں تبدیلی کی تجویز دی گئی ہے تاکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان پیدا ہونے والے تعطل کا حل نکالا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے 27 ویں آئینی ترامیم مجوزہ مسودہ پیپلزپارٹی کے حوالے کردیا اور اتحادی جماعتوں سے مشاورت مکمل کرنے کے بعد حتمی مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔
خیال رہے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے تصدیق کی ہے کہ پارٹی کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس 6 نومبر کو صدر آصف زرداری کی واپسی کے بعد طلب کیا گیا ہے، جس میں ترمیمی بل پر باضابطہ فیصلہ کیا جائے گا۔
آئینی ترمیم منظور کرانے کے لیے حکومت کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہے، اس لیے پیپلز پارٹی کی حمایت اس اہم آئینی اقدام کی کامیابی کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔











