منگل,  28 اکتوبر 2025ء
جے 10 سی اور یورو فائڑ طیارے میں سے بہتر کون؟ حیرت انگیز نتائج سامنے آ گئے

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) ترکیہ کی جانب سے برطانیہ کے ساتھ یورو ٹائیفون طیارے خریدنے کے معاہدے کے بعد سوشل میڈیا پر یہ بحث چھڑ پڑی ہے کہ جے 10 سی اور یورو ٹائیفون طیارے میں سے کون سا جیٹ بہتر ہے۔

دونوں طیارے 4.5 جنریشن سے تعلق رکھتے ہیں، جے 10 سی چین بناتا ہے جب کہ یورو فائٹر طیارے کو برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور اسپین نے ملکر بنایا ہے۔

کارکردگی کی بات کی جائے تو پاکستان نے بھارت کے ساتھ حالیہ  جنگ کے دوران  جے-10 سی اور جے ایف 17 تھنڈرز طیاروں سے 8 بھارتی طیارے گرائے جن میں رافیل طیارے بھی شامل ہیں۔

 

مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک اسے مغربی ہتھیاروں کے مقابلے میں ایک سستا اور مؤثر متبادل سمجھ رہے ہیں۔ یہ طیارہ 2023 میں دبئی ایئر شو کے دوران مشرقِ وسطیٰ میں پہلی مرتبہ عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔

پیپلز لبریشن آرمی ایئر فورس (PLAAF) کے جے-10 سی طیاروں نے دبئی ایئر شو کے 18ویں ایڈیشن میں حصہ لیا اور مختلف پروازوں میں 20 سے زائد کرتب پیش کیے۔

بعد ازاں ریاض میں ہونے والے ورلڈ ڈیفنس شو 2024 میں بھی جے-10 سی نے اپنی کارکردگی سے توجہ حاصل کی۔ چینی ایئر فورس کی “بائی ایروبٹک ٹیم” نے آسمان پر سعودی پرچم کے رنگوں میں فضائی کرتب دکھا کر حاضرین کو متاثر کیا۔

مزید پڑھیں: والد نے طیارہ حادثے سے چند ماہ قبل ہی شہادت کی دعا مانگنا شروع کر دی تھی: جنید جمشید کے بیٹے کا انکشاف

جنوری 2024 میں چینی فضائیہ کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں ایک YY-20 ری فیولنگ طیارے کو سات جے-10 سی جنگی طیاروں کو فضا میں ایندھن فراہم کرتے دکھایا گیا، جسے چین کی فضائی طاقت کا شاندار مظاہرہ قرار دیا گیا۔

جے-10 سی، جے-10 بی کا جدید ورژن ہے جس میں جدید AESA ریڈار، PL-10 اور PL-15 میزائل، WS-10B انجن اور انفراریڈ ٹارگٹنگ سسٹم شامل ہیں۔ اسے اکثر امریکی ایف-16 فائٹنگ فالکن سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔

جے-10 سی بمقابلہ یورو فائٹر

پاکستان اور قطر کے درمیان 2024 میں ہونے والی مشترکہ فضائی مشق “غزل-II” میں مجموعی طور پر نو فرضی فضائی جھڑپیں (ایئر ٹو ایئر انگیجمنٹس) ہوئیں، جن میں چار بِی وی آر (Beyond Visual Range) یعنی نظر سے باہر اور پانچ ڈاگ فائٹس (قریبی فضائی لڑائیاں) شامل تھیں۔

چینی میڈیا کے مطابق ان مشقوں میں جے 10 سی نے یوروفائٹر کو 9-0 سے شکست دی ۔ پاکستانی فضائیہ نے ان تنائج پر صرف یہ کہا کہ اس نے “مدمقابل کا احترام حاصل کیا”، جب کہ تفصیلی نتائج اور تجزیے سامنے آنے میں ابھی کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

ریڈار ٹیکنالوجی

ماہرین کے مطابق جدید فضائی جنگ میں اصل فیصلہ ریڈار کی کارکردگی پر ہوتا ہے۔قطر کو 2022 میں ملنے والے یوروفائٹر ٹائفون طیارے Captor-E AESA ریڈار سے لیس ہیں، لیکن یہ ریڈار ابتدائی MK-0 بیچ سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں کچھ محدود فیچرز ہیں۔

برطانیہ اور جرمنی نے اب MK-2 ریڈار اپ گریڈ کا آغاز کر دیا ہے، لیکن قطر کے بیڑے کو اس سطح تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔

اس کے برعکس، چین کے J-10C میں Gallium Nitride AESA ریڈار نصب ہے جو گزشتہ آٹھ سال سے سروس میں ہے اور اس کے متعدد ورژن بہتر کیے جا چکے ہیں۔

بیرونی ساخت سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جے-10 سی ای کا ریڈار اور انفراریڈ سرچ اینڈ ٹریک سسٹم (IRST) سائز میں بڑا اور زیادہ مؤثر ہے، جو بہتر صورتحال کی آگاہی اور بقا کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔

یہ فرق اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یورپی ریڈار ٹیکنالوجی کچھ حد تک پیچھے رہ گئی ہے۔

ایروڈائنامکس اور ڈیزائن میں فرق

اگرچہ دونوں طیاروں کا کینارڈ لے آؤٹ (سامنے کے چھوٹے پروں والا ڈیزائن) مشابہ ہے، مگر ایروڈائنامک ساخت میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔ یوروفائٹر ٹائفون کا ڈیزائن زیادہ تر اونچی بلندی اور تیز رفتاری پر روسی بمبار طیاروں کے انسداد کے لیے بنایا گیا، اس لیے اس کی کارکردگی 12,000 میٹر سے اوپر کے علاقوں میں شاندار ہے۔

اس کے برعکس، J-10CE کی قوت 10,000 میٹر سے نیچے کے فضائی جنگی مناظر میں نمایاں ہے۔

چینی طیارے کی اینگل آف اٹیک (Angle of Attack) تقریباً 27.6 ڈگری تک جا سکتی ہے، جب کہ یوروفائٹر کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت 24 ڈگری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درمیانی یا کم بلندی پر J-10CE کو فوری موڑنے (Instant Nose Pointing) میں برتری حاصل رہتی ہے۔

طاقت اور انجن کی برتری

یوروفائٹر کے دو EJ200 انجنز اسے زیادہ تھرسٹ اور اسپیڈ دیتے ہیں، جب کہ J-10CE کا ایک WS-10B انجن اگرچہ طاقتور ہے مگر مجموعی طور پر چار ٹن کم زور فراہم کرتا ہے۔
اس لیے ہائی اسپیڈ فلائٹس میں یوروفائٹر کو معمولی برتری حاصل رہتی ہے۔

ہتھیاروں کا موازنہ

پاکستانی J-10CE طیارے PL-15E درمیانی فاصلے کے میزائل اور جدید AESA ریڈار سے لیس ہیں، جو AIM-120 سیریز کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔

دوسری جانب یوروفائٹرز کے پاس Meteor میزائل موجود ہیں جن کی رینج 140 کلومیٹر سے زائد ہے اور وہ دو طرفہ ڈیٹا لنک کے ذریعے ہدف کو دوبارہ نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

قریب فاصلے کی جھڑپوں میں، J-10CE کا PL-10E میزائل اور ہیلمٹ ماؤنٹڈ ڈسپلے اسے تیز ردعمل دیتا ہے، جب کہ ٹائفون کا AIM-132 اور Striker HUD بھی موثر ہیں، یوں دونوں تقریباً برابر دکھائی دیتے ہیں۔

انسانی عنصر: سب سے اہم

تجزیہ کاروں کے مطابق اصل فرق پائلٹس کی مہارت سے پیدا ہوتا ہے۔ قطر کی 12ویں اسکواڈرن، جو ان مشقوں میں شریک تھی، دراصل برطانیہ-قطر مشترکہ یونٹ ہے، جس میں کچھ برطانوی پائلٹس بھی شامل ہیں۔

یوں پاکستانی پائلٹس نے نیٹو کے تجربہ کار پائلٹس اور نیٹو طیاروں کے خلاف براہِ راست مقابلہ کیا جو چین اور پاکستان دونوں کے لیے ایک اہم تجربہ سمجھا جا رہا ہے۔

مزید خبریں