لیڈز (روشن پاکستان نیوز) برطانیہ، جو کبھی فلاحی ریاست کی علامت سمجھا جاتا تھا، اب اپنے ہی شہریوں کو سڑکوں پر مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے پر مجبور دیکھ رہا ہے۔ لیڈز سٹی سینٹر سے ملحقہ شاہراہ پر ایک برطانوی شہری کے بھیک مانگنے کی تصویر نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ کیا ترقی یافتہ دنیا بھی اب سماجی ناہمواری اور غربت کی دلدل میں پھنس چکی ہے؟
برطانیہ میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، روزگار کے بحران اور حکومت کی پالیسیوں نے متوسط اور نچلے طبقے کے لیے زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ ایک طرف برطانوی حکومت مذہبی اداروں یا بیرونی منصوبوں پر ملین پاؤنڈ خرچ کر رہی ہے، تو دوسری طرف ان کے اپنے شہری کھانے اور رہائش کے لیے ترس رہے ہیں۔ ایسے غیر متوازن فیصلے عوام کے دلوں میں مایوسی اور غصے کو جنم دے رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، یہی وہ رویے ہیں جو معاشرتی ناہمواری، جرائم اور مقامی آبادی میں امیگرنٹس کے خلاف نفرت کو بڑھا رہے ہیں۔ لندن، مانچسٹر اور برمنگھم جیسے شہروں میں بے گھر افراد کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: مرکزی جماعت اہلِ سنت برطانیہ کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر پیر سید عبدالقادر شاہ جیلانی لندن میں انتقال کرگئے
اس کے برعکس، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں باوجود معاشی مشکلات کے، انسانی ہمدردی اور سماجی یکجہتی آج بھی زندہ ہے۔ پاکستان میں نہ صرف مخیر حضرات ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں بلکہ حکومت بھی احساس پروگرام، بینظیر انکم سپورٹ اور فلاحی اداروں کے ذریعے غریب عوام کو سہارا فراہم کر رہی ہے۔
پاکستان کے عوام میں ایک دوسرے کے لیے احساس اور مدد کا جذبہ برطانیہ سمیت کئی ترقی یافتہ معاشروں کے لیے مثال بن سکتا ہے۔ برطانیہ کو اب ضرورت ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی فلاح کو عالمی سیاست یا امدادی وعدوں سے زیادہ اہمیت دے۔
یہ وقت ہے کہ برطانوی حکومت اپنے عوام کو دوبارہ فلاحی ریاست کا احساس دلائے — کیونکہ کسی ملک کی اصل ترقی اس کے شہریوں کے معیارِ زندگی، مساوات اور انسانیت کے احترام میں پوشیدہ ہے، نہ کہ بلند عمارتوں یا معاشی اعداد و شمار میں۔











