بدھ,  27  اگست 2025ء
انجینئر محمد علی مرزا کون ہیں اور انہیں دوبارہ کیوں گرفتار کیا گیا؟

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) سوشل میڈیا سے مقبولیت حاصل کرنے والے متنازع مذہبی اسکالر انجینئر محمد علی مرزا کو جہلم پولیس نے گرفتار کرلیا ہے، مئی 2020 کے بعد انہیں دوسری بار حراست میں لیا گیا ہے۔

حال ہی میں بعض مذہبی جماعتوں سے وابستہ شخصیات نے انجینئر محمد علی مرزا کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں اور مؤقف اپنایا تھا کہ ماہ ربیع الاول کے دوران سوشل میڈیا پر انجنیئر کی گفتگو امن و امان کے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔

پولیس کے مطابق محمد علی مرزا کو تھری ایم پی او کے تحت ڈپٹی کمشنر جہلم کے احکامات پر گرفتار کیا ہے جبکہ انتظامیہ نے اُن کی اکیڈمی کو بھی سیل کردیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ علما کے وفود نے حال ہی میں ضلعی انتظامیہ سے خصوصی ملاقات کرکے محمد علی مرزا کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔ جس پر قانون کے مطابق کارروائی کی اور انہیں گرفتار کیا گیا جبکہ معاملے کی مزید تحقیقات جاری ہیں۔

انجیئر محمد علی مرزا کی گرفتاری پر کئی حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر بات کی جارہی ہے، بعض نے ان کی گرفتاری پر تنقید کی ہے جب کہ بعض کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں امن و امان کے پیش نظر ان کو حراست میں لینے کا اقدام درست ہے۔

انجینئر محمد علی مرزا کا تعلق پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر جہلم سے ہے۔ وہ اپنے منفرد اندازِ بیان اور تحقیقی لیکچرز کے باعث خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ جہلم میں ایک اکیڈمی چلاتے ہیں جہاں دینی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ آن لائن پلیٹ فارمز بالخصوص یوٹیوب پر بھی وہ فعال ہیں۔

مزید پڑھیں : پی آئی اے کا لاہور سے پیرس کیلئے فضائی آپریشن بند کرنے کا فیصلہ

محمد علی مرزا کا یوٹیوب پر ان کے اپنے نام سے ایک چینل ہے جس پر وہ لیکچرز اپلوڈ کرتے ہیں اور ان کے سبسکرائبرز کی تعداد 3.1 ملین (30 لاکھ) سے زائد ہے۔ ان کے یوٹیوب چینل پر شائع ہونے والے لیکچرز لاکھوں بار دیکھے جاچکے ہیں جس میں وہ معاشرتی اور مذہبی موضوعات پر کھل کر بات کرتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں نوجوان طبقے میں خاصی مقبولیت حاصل ہے۔

تاہم محمد علی مرزا کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔ بعض حلقے ان کے اندازِ گفتگو اور مؤقف سے اختلاف کرتے ہیں اور انہیں متنازع قرار دیتے ہیں۔

محمد علی مرزا کی متعدد تقاریر مختلف تنازعات کا باعث بن چکی ہیں مگر اس کے باوجود ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی۔

4 مئی 2020 کو جہلم پولیس نے آن لائن مذہبی لیکچر دینے والے محمد علی مرزا کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ اُس وقت وہ سوشل میڈیا پر کافی مقبولیت حاصل کر چکے تھے اور ان کے بیانات کو وسیع پیمانے پر دیکھا اور سنا جا رہا تھا۔

اس ویڈیو میں محمد علی مرزا پیری مریدی، بیعت اور بعض مذہبی شخصیات کے حوالے سے گفتگو کرتے دکھائی دیے۔ اس دوران جب انہوں نے چند مذہبی شخصیات کا ذکر کیا تو اس موقع پر ایک شخص نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ ایسی بات نہ کریں، یہ زیادتی ہے۔ اس پر انجینئر مرزا نے جواب دیا کہ وہ قرآن، حدیث اور سنت کی روشنی میں بات کر رہے ہیں، اس لیے اپنی بات مکمل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

ویڈیو سامنے آنے کے بعد محمد علی مرزا کے خلاف دفعہ 153-اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ یہ دفعہ اس وقت لگائی جاتی ہے جب کسی بات یا عمل سے مختلف گروہوں کے درمیان نفرت یا لڑائی کا خدشہ ہو۔ اسی وجہ سے انہیں گرفتار کیا گیا لیکن چھ مئی 2020 کو وہ ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

جہلم کے اُس وقت کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) عمر فاروق کے مطابق محمد علی مرزا نے ایک وائرل ویڈیو میں چند مذہبی شخصیات کے بارے میں قتل کی بات کی تھی، جس سے دیگر فرقوں کے لوگ مشتعل ہو رہے تھے۔ اسی وجہ سے پولیس نے کارروائی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ مقدمہ کسی فرقہ وارانہ اختلاف پر نہیں بلکہ مذہبی شخصیات کو قتل کرنے کے بیان پر درج کیا گیا تھا اور یہ پولیس کی اپنی مدعیت میں درج ہوا تھا۔

البتہ محمد علی مرزا کا مؤقف تھا کہ ان کی بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا تھا۔

انجینئر محمد علی مرزا کی گرفتاری کے بعد ہی سے سوشل میڈیا ہر ان کی گرفتاری اور وائرل ہونے والی ویڈیو زیر بحث آگئی تھی۔ جس کے بعد ایکس (ٹوئٹر) پر ان کے نام سے ٹرینڈ بھی چلنے لگے تھے اور محمد علی مرزا کی گرفتاری پر عوام کے ردعمل کے ساتھ ساتھ دیگر چند نامور شخصیات کے بیانات بھی سامنے آئے تھے۔

جہاں لوگوں کی بڑی تعداد ان کے حق میں بات کررہی تھی وہیں کچھ لوگوں نے محمد علی مرزا کی گرفتاری کو سراہا تھا۔

مزید خبریں