اتوار,  10  اگست 2025ء
خضدار اسکول بس حملہ: بھارتی را کا نیٹ ورک اور BLA کی پراکسی وار بے نقاب، اہم ملزم درویش عرف ساگر گرفتار

اسلام آباد (محمد زاہد خان)‏خضدار اسکول بس حملہ اہم حقائق بھارتی را اور بھارتی سپانسرڈ فتنہ الخوارج کا ایک اور نیٹ ورک بے نقاب نقاب درویش عرف ساگر گرفتار تفصیلات کے مطابق بھارتی را نیٹ ورک نے بلوچستان میں حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی بھارتی ٹرول Balochistan Facts اور BYC سے جڑے اکاؤنٹس نے اسکول بس کو فوجی گاڑی قرار دیا کہ خضدار میں اسکول بند تھے۔جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی کیلنڈر کو winter اور summer کے علاقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے سرد اضلاع (مثلاً کوئٹہ، قلات) میں طویل سرمائی تعطیلات 16 دسمبر تا 28 فروری جبکہ گرم اضلاع میں صرف 22–31 دسمبر کی وقفہ ہوتا ہے گرم علاقوں کیلئے صوبائی نوٹیفکیشن کے تحت موسمِ گرما کی تعطیلات 15 مئی سے 31 جولائی تک ہیں۔خضدار کا زیادہ تر حصہ گرم زون میں آتا ہے؛ تاہم بعض بلند پہاڑی یونین کونسلیں سرد زون کی رعایت بھی رکھتی ہیں یہی ابہام بھارتی ٹرولز نے استعمال کیا۔ حملے کا نشانہ بننے والی بس Army Public School & College System (APSACS) خضدار کی تھی، جو وفاقی وزارتِ دفاع کے ماتحت پورے ملک میں ایک ہی نصابی و تعطیلاتی کیلنڈر پر عمل کرتا ہے اور APSACS کے گرم علاقوں کیلئے سمر بریک 9 جون سے شروع ہوتی ہے 21 مئی کو بس باقاعدہ کلاسز اور سالانہ امتحانات کے دوران طلبہ لے کر جا رہی تھی۔یوں صوبائی چھٹیوں کا حوالہ اس بس پر لاگو ہی نہیں ہوتا بھارتی پروپیگنڈےکا بنیادی نکتہ یہیں بے نقاب ہو جاتا ہے سکول بند ہونے کا دعویٰ جھوٹ ہے کیونکہ APS کا امتحانی مرحلہ جاری تھا۔ فوجی قافلے پر حملے کا دعویٰ جھوٹ ہے کیونکہ بس میں 40 سے زائد اسکول بیگز اور یونیفارم زدہ طلبہ موجود تھے تصدیق حکومتی فوٹیج اور غیرملکی ایجنسیز نے بھی کی۔

‏پشاور APS (2014) کے زخم کی یاد تازہ کرنا BLA کی نفسیاتی حربہ گری ہے جس کے تانے بانے بھارتی پراکسی وار ڈاکٹرائن سے ملتے ہیں خضدار کا یہ سانحہ صرف ایک دہشت گرد حملہ نہیں اطلاعاتی محاذ پر بھی لڑا جانے والا معرکہ ہے۔

پاکستان نے پشاور کے زخموں سے سیکھا تھا کہ بچوں کے خون سے لکھی گئی تحریریں کبھی مٹتی نہیں خضدار کے معصوم شہداء نے اس سبق کو پھر زندہ کیا جھوٹے پروپیگنڈے کو توڑنا اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بے نقاب کرنا اب قومی فرض ہے کیونکہ یہ حملہ صرف ایک بس پر نہیں، پورے پاکستان کے تعلیمی مستقبل پر تھا ‏واضح رہے کہ 21 مئی کی صبح زیرو پوائنٹ، خضدار میں آرمی پبلک اسکول (APS) کی بس پر خودکش کار بم حملے نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا تھا چار بچے، بس ڈرائیور اور سیکورٹی گارڈ موقع پر شہید ہوئے جب کہ درجنوں طلبہ شدید زخمی ہیں۔ ابتدائی تفتیش، بم ڈسپوزل اسکواڈ کی 30 کلوگرام بارود کی تصدیق اور جائے وقوعہ کی جغرافیائی خصوصیات سب اِس واردات کو بھارتی دہشت گرد تنظیم BLA کے معروف حملہ آور طریقِ کار سے جوڑتی ہیں میدانِ جنگ میں ناکامی کے بعد بھارت ماضی کی طرح بچوں پر حملہ کر کے پاکستان کو اخلاقی دباؤ میں لانا چاہتا ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے حسبِ روایت الزامات کو “بے بنیاد” کہا، مگر BLA کی سرگرمیوں کی تاریخ اور اس حملے کا ٹارگٹ دونوں اس بیانیے کو کمزور کر دیتے ہیں ‏خضدار حملے سے 24 گھنٹے پہلے سندھ رینجرز اور پولیس نے لیاری کے سَرگواڑ محلے میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا اور بھارتی ایجنٹ درویش عرف ساگر کو ہتھیاروں، دستی بم اور ایمونیشن سمیت گرفتار کیا۔دفاعی ذرائع کے مطابق 15 مئی کو انٹر سروسز انٹیلی جنس (ISI) کی ریڈ فلیش 17-05 وارننگ جاری ہوئی، جس میں بلوچستان کے کسی شہری ہدف پر بھارتی تنظیم BLA-مجید بریگیڈ کے ممکنہ حملے کا امکان بتایا گیا تھا۔ تاہم اس بریف میں اسکول بس جیسی کم سن زد پذیر سواری کا واضح ذکر نہ تھا خضدار کوئٹہ آر سی ڈی ہائی وے پر ایک اسکول بس کو خودکش کار بم سے اڑا دیا گیا تین ننھے طالب علم، بس کا ڈرائیور اور سکیورٹی گارڈ موقع پر شہید، درجنوں بچے شدید زخمی ہوئے۔منصوبہ بندی بھارت کے خفیہ ادارے RAW نے کی جبکہ فیلڈ عملدرآمد بھارتی پراکسی تنظیموں نے کیا یہ وہی پراکسی وار ڈاکٹرائن ہے جو 1971 کے بعد سے چلی آ رہی ہے میدان جنگ میں دباؤ نہ چلے تو اندرون پاکستان شہری دہشت گردی سے خوف پھیلاؤ۔

گرفتار بھارتی ایجنٹ ساگر کے اعتراف جرم کے مطابق ‏2015 میں بی ایس او آزاد سے جڑا، 2018 میں بنڈل گروپ کے فاروق کے ذریعے بی ایل اے میں شامل ہوا اس نے فاروق ، مجید عرف بابا اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر بی ایل اے/بی ایل ایف کے درجنوں عسکریت پسندوں کو کراچی و بلوچستان میں پناہ، علاج اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کی وہ بلوچ مسنگ پرسنز تحریک کی نمایاں رکن حیام بلوچ کا فرنٹ مین رہا اور خاتون خودکش بمبار ماہل بلوچ کی ذہن سازی و سہولت کاری میں ملوث رہا ‏درویش نے اعتراف کیا کہ دبئی اور مسقط کے دو ایکسچینج ہاؤسز سے حوالہ ہنڈی کے ذریعے شمس ٹریڈنگ کمپنی کے نام پر ماہانہ 80,000 ڈالر وصول ہوتے تھے یہ رقوم پروجیکٹ ورُونا کے کوڈ سے کراچی، تربت اور قلات میں تقسیم ہوتیں۔مزید یہ کہ خضدار حملے سے چار دن قبل بھارتی نمبر سے چلنے والا ایک ثریا سیٹلائٹ فون کوئٹہ، مستونگ اور لیاری کے بی ٹی ایس ٹاورز پر لاگ اِن پایا گیا ان شواہد نے را اور بی ایل اے کے آپریشنل گٹھ جوڑ خاص طور پر شہری اہداف کی تیاری کو مضبوطی سے جوڑ دیا ہے۔

‏را کے ڈسٹرپٹ اینڈ ڈیمورالائز فریم ورک کے تحت اب اسکول بس جیسے آسان مگر جذباتی اہداف کو چُنا جا رہا ہے۔ مقصد یہ کہ عالمی رائے عامہ میں پاکستان کو غیر محفوظ ثابت کیا جائے اور اندرون ملک خوف و مایوسی کو ہوا دی جائے۔ بھارتی میڈیا کا خاموش نوحہ بھی اسی حکمتِ عملی کا حصہ ہے حملے کی مکمل کوریج سے گریز اور الزام تراشی کو پروپیگنڈا کہہ کر رد کرنا اس کی واضح مثال ہے۔ ‏انٹیلی جنس فیوژن سیل نے آپریشن فالکن کلاو کو پورے جنوبی بلوچستان تک توسیع دینے کی سفارش کی ہے۔

وزارتِ خارجہ نے Children as Targets کے نام سے 200 صفحات پر مشتمل ڈوزیئر او آئی سی اور اقوام متحدہ میں جمع کرادیا ہے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس اگلے ہفتے طلب کیا جاسکتا ہے RAW-BLA نیٹ ورک پر قومی پالیسی بیان سامنے لایا جائے گا۔ ‏خضدار کا خون آلود منظر ہمیں باور کراتا ہے کہ دہشت گردی اب محض فزیکل وار نہیں نفسیاتی جنگ کی اگلی دہلیز ہے جہاں دشمن معصومیت کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے درویش عرف ساگر کی گرفتاری نے ثابت کر دیا کہ را کے مالی و فکری بوسٹر کے بغیر بی ایل اے جیسی تنظیمیں نہ اتنی منظم رہ سکتیں نہ اتنی مہلک اب فیصلہ ریاست نے کرنا ہے کیا ہم صرف ردعمل دکھاتے رہیں گے یا پراکسی وار کے اس تانے بانے پر پیشگی وار سے مہرِ اختتام ثبت کریں گے؟

مزید خبریں