اسلام آباد (ایم اے شام) — وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم 50 فیصد سے زائد سرکاری اسکولز اور ماڈل کالجز میں زیرِ تعلیم ہزاروں طلبہ و طالبات گزشتہ کئی سالوں سے ٹرانسپورٹ کی سہولت سے محروم ہیں، جس کے باعث تعلیمی سرگرمیوں کا تسلسل برقرار رکھنا بالخصوص متوسط اور نچلے طبقے کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق، وفاقی تعلیمی اداروں کے لیے مختص تقریباً 30 فیصد سرکاری بسیں یا تو مکمل طور پر خراب ہو چکی ہیں یا ڈیزل کی عدم دستیابی کے سبب طویل عرصے سے بند کھڑی ہیں۔ اس کے نتیجے میں والدین کو مجبوراً مہنگی نجی ٹرانسپورٹ استعمال کرنی پڑ رہی ہے، جس کے اخراجات اکثر اوقات ان تعلیمی اداروں کی فیس سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں — حالانکہ سرکاری ادارے معمولی یا بالکل فیس نہیں لیتے۔
مہنگائی کی موجودہ لہر اور روز بروز بڑھتی ہوئی پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ والدین کا کہنا ہے کہ انہیں ہر ماہ ہزاروں روپے صرف اپنے بچوں کے اسکول آنے جانے پر خرچ کرنے پڑتے ہیں، جو ان کے محدود گھریلو بجٹ کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔
متاثرہ والدین اور تعلیمی حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر سرکاری اسکولز و کالجز کے لیے بسوں کی مرمت کی جائے، اور ڈیزل کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ طلبہ و طالبات کو سفری سہولت دی جا سکے اور وہ سکون سے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
مزید پڑھیں: پورے پاکستان اور آزاد کشمیر میں مذہبی سکولوں میں بچوں سے زیادتی کے بڑے پیمانے پر الزامات
اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو خدشہ ہے کہ مالی دباؤ کے باعث کئی خاندان اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنے پر مجبور ہو جائیں گے، جو ایک قومی المیہ ہو گا۔