اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) اسلام آباد میں وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ نے گرین بیلٹس پر قائم 57 مساجد کو مسمار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حکام کے مطابق یہ تمام مساجد غیرقانونی طور پر سرکاری زمینوں، خصوصاً گرین ایریاز پر قائم کی گئی ہیں، جہاں تعمیرات کی اجازت نہیں۔ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ گرین بیلٹس فروخت کے لیے مختص نہیں ہوتیں، اور ان پر بنائی گئی مساجد کو “قبضہ” تصور کیا جاتا ہے۔
اس فیصلے پر عوامی اور سوشل میڈیا حلقوں میں شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر واقعی یہ مساجد غیرقانونی زمین پر قائم تھیں، تو انتظامیہ کو کم از کم پہلے مرحلے میں ان کے باہر بورڈز لگانے چاہیے تھے جن پر واضح ہوتا کہ یہ مساجد ناجائز اراضی پر بنی ہیں اور ایسی جگہوں پر نماز ادا کرنا شرعی طور پر درست نہیں۔ اس اقدام سے عوام کو آگاہی بھی ملتی اور اشتعال انگیزی سے بھی بچا جا سکتا تھا۔
دوسری جانب کئی شہریوں نے سوال اٹھایا ہے کہ یہی اصول اسلام آباد کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں پر کیوں لاگو نہیں ہوتے، جہاں بڑے بڑے فیزز اور ایکسٹینشنز غیرقانونی قبضوں پر تعمیر کی گئی ہیں۔ شہریوں کا مطالبہ ہے کہ اگر قانون واقعی سب کے لیے برابر ہے تو ان طاقتور مافیاز کے خلاف بھی کاروائی کی جائے جنہوں نے اربوں روپے مالیت کی زمین پر قبضہ جما رکھا ہے، نہ کہ صرف کمزور طبقے یا مذہبی شعائر کو نشانہ بنایا جائے۔
اس معاملے کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر اس بات پر بھی سخت تنقید کی جا رہی ہے کہ ایک طرف مساجد گرائی جا رہی ہیں، جبکہ دوسری طرف اسلام آباد میں شراب فروخت کی کھلی اجازت دی جا رہی ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ یہ کیسا “اسلامی جمہوریہ پاکستان” ہے جہاں ایک طرف اللہ کے گھر گرانے کی بات ہو رہی ہے، اور دوسری جانب گناہ کو قانونی حیثیت دی جا رہی ہے؟ کئی صارفین نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا ملک میں اسلامی اصول صرف کمزوروں پر لاگو ہوتے ہیں؟
مزید پڑھیں: ملک بھرکی مساجد میں لاکھوں مسلمان آج اعتکاف بیٹھیں گے
یہ تمام حالات عوام میں بےچینی اور عدم اعتماد کو بڑھا رہے ہیں۔ اگر حکومت واقعی قانون کی بالادستی چاہتی ہے تو اسے مساوی انصاف یقینی بنانا ہوگا، تاکہ عوام کے دلوں میں ریاست کے لیے اعتماد بحال ہو سکے۔ ورنہ یہ تاثر مزید گہرا ہو گا کہ ریاست طاقتور کے لیے نرم اور کمزور کے لیے سخت رویہ رکھتی ہے۔