اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز)حریف جماعتوں کے قانون ساز اور سیاستدان بھی تحریک انصاف کے سربراہ کے حق میں بول پڑے اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کردیا۔
ایک تجزئیے کے مطابق عمران خان کے حامیوں اور مقتدرحلقوں کے درمیان لڑائی دو محاذوں پر جاری ہے،ایک سڑکوں اوردوسری سوشل میڈیا پر۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعدپاکستان کی حکومت نے مزاحمت کو روکنے کی کوشش میں انٹرنیٹ پر پابندیاں لگا دیں۔
لیکن ملک کے ایک معروف سیاسی رہنما کی گرفتاری کے فوری بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔
پورے ملک میں سوشل میڈیا سائٹس بند ہو گئیں، لوگوں کو فیس بک، یو ٹیوب اور ٹوئٹر تک رسائی حاصل کرنے میں مشکل کا سامنا ہوا۔
جنوبی ایشیا میں حالیہ برسوں کے دوران انٹرنیٹ کی بندش حکومتوں کا ایک ہتھیار بنتا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکام معلومات پر کنٹرول رکھنے، احتجاج اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے ملک کو آف لائن کرتے ہیں۔
مزیدپرھیں:انتخابات میں شکست،ایمل ولی نے دھمکی دے ڈالی
سنگاپور کے کاتھک ناچیاپن کہتے ہیں کہ حکومتوں کے پاس ایک ہتھوڑا ہوتا ہے اور انٹرنیٹ کو ایک کیل طرح سمجھنا آسان ہوتا ہے۔
امریکہ کے دی ایٹلانٹک کونسل نامی تھنک ٹینک کے عزیر یونس کہتے ہیں کہ ملک میں عام لوگوں کا مرکزی میڈیا پر اعتماد اس حد تک ختم ہو چکا ہے کہ لوگ آن لائن جا کر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اصل میں ہو کیا رہا ہے۔
عمران خان نے اپنی سیاسی واپسی کے سفر میں اپنی حکومت کے خاتمے کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
برطانیہ میں انٹرنیٹ مانیٹر کرنے والی کمپنی نیٹ بلاکس کے مطابق عمران خان کی گرفتاری سے لیکر اب تک مختلف اوقات کار میں انٹرنیٹ کی بندش ہوتی رہی ہے۔
نیٹ بلاکس کے مطابق جن علاقوں میں موبائل نیٹ ورک متاثر ہوا ان کی اکثریت پنجاب میں تھی جو پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے اور اس وقت عمران خان کا مضبوط گڑھ بن رہا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی پہلے سے ہی کمزور معیشت پر بھی اس کا گہرا اثر پڑرہا ہے۔
جبکہ حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کو سیاسی حریفوں پر یہ واضح برتری حاصل ہے اورسیاسی گرما گرمی اور آن لائن بحث اب تک جاری ہے۔
کیونکہ لوگ صرف عمران خان کے ساتھ جو ہوا اس کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ معاشی صورت حال کی وجہ سے بھی جذباتی ہیں۔
یہ غصہ اور مایوسی اب پھٹنے کے قریب ہے، ہر کوئی کچھ کہنا چاہتا ہے۔
اب توحریف جماعتوں کے سیاستدان بھی کہنے لگ گئے ہیں 8فروری کے انتخابات کے روز لوگوں کو آزادی سے ووٹ ڈالنے کا موقع ملا، عوام کی ووٹنگ سے ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوگیا۔ تحریک انصاف کو مینڈیٹ ملا ہے
مشکلات کے باوجود تحریک انصاف سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے۔
تاہم سیاستدان خدشہ طاہر کر رہے ہیں کہ 8 فروری کے انتخابات کہیں بحرانی کیفیت نہ لے آئیں۔
اس بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے صورتحال کی جڑ تک جانا ہوگا،
لیگی قانون ساز کہتے ہیں کہ جب ہمارے ساتھ ہورہا تھا تو دوسری سائیڈ بڑی خوش تھی اور جب ان کے ساتھ ہورہا تھا تو ہم نے بڑی خوشیاں منائیں بہتر ہوتا کہ پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہونے کے بعد الیکشن کروا دئیے جاتے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ بشمول عمران خان جتنے سیاسی قیدی ہیں سب کو رہا کیا جائے،
لیگی قانون سازوں نے کہا کہ ملک میں سیاسی استحکام اسی صورت میں آسکتا ہے جب تین بڑی سیاسی جماعتیں، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف مل کرکام کریں،
ماضی میں بڑی زیادتیاں ہوئی، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی عدالتی قتل تھا، پیپلز پارٹی نے صعوبتیں برداشت کی، میاں نواز شریف کے خلاف بھی 1993، پھر 2017 میں سافٹ کوز ہوئے، ان کے خلاف ملٹری ایکشن ہوا، ان کو ہتھکڑی بھی لگائی گئی۔
اب عوامی مینڈیٹ کا احترام ہونا چاہیے، جس جماعت کو مینڈیٹ ملا اس کا احترام ہونا چاہیے، تحریک انصاف کو بھی رویہ تبدیل کرنا چاہیے۔ نواز شریف کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ابتدائی قدم اٹھائیں۔
اگر سیاست دان ایسا نہیں کریں گے تو ان کے پاس قدم بڑھانے کا موقع ضائع ہو جائے گا۔