جمعرات,  31 جولائی 2025ء
سپریم کورٹ نے طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن نہ دینے والے امتیازی سرکلر کو کالعدم قرار دے دیا

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) سپریم کورٹ نے طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن دینے کے حوالے سے بڑا فیصلہ سنا دیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ بیٹی کی پنشن شادی کی حیثیت پر نہیں، حق کی بنیاد پر دی جائے گی، بیٹی کی پنشن کے لیے طلاق کا وقت (والد کی وفات سے پہلے یا بعد) غیر متعلقہ ہے۔

جسٹس عائشہ ملک کا تحریری کردہ 10 صفحات کا فیصلہ جاری کر دیا گیا، فیصلے کے مطابق پنشن سرکاری ملازم کا قانونی حق ہے، خیرات نہیں،پنشن کا حق اہل خانہ کو منتقل ہوتا ہے اور اس میں تاخیر جرم ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ خواتین کی پنشن کا انحصار صرف مالی ضرورت پر ہونا چاہیے، نہ کہ شادی کی حیثیت پر۔عدالت نے والد کی وفات کے بعد طلاق یافتہ بیٹی کو پنشن نہ دینے والے امتیازی سرکلر کو کالعدم قرار دے دیا۔

فیصلے میں کہا گیاکہ سندھ حکومت کا 2022 کا امتیازی سلوک والا سرکلر غیر قانونی اور آئین کے خلاف ہے۔پاکستان کا بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کے باوجود صنفی مساوات میں بدترین رینکنگ پر ہونا باعثِ افسوس ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے خواتین کے بانجھ پن پر مہر یا نقتہ سے انکار کو غیر قانونی قرار دے دیا

واضح رہے کہ درخواست گزار سورۃ فاطمہ (طلاق یافتہ بیٹی) نے والد کی پنشن دوبارہ شروع کرنے کی درخواست دی تھی، سندھ ہائی کورٹ کے لاڑکانہ بینچ نے درخواست گزار سورۃ فاطمہ کی پنشن کی منظوری دی، سندھ ہائیکورٹ فیصلہ کیخلاف سندھ حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

سندھ حکومت نے موقف اختیار کیا کہ پنشن صرف ایسی بیٹی کو مل سکتی ہے جو والد کی وفات کے وقت طلاق یافتہ ہو،سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا اور کہا کہ پنشن خیرات یا بخشش نہیں بلکہ آئینی اور قانونی حق ہے۔

عدالت نے کہا کہ بیٹی کی پنشن کو شادی کی حیثیت سے مشروط کرنا آئین کے آرٹیکل 9، 14، 25 اور 27 کی خلاف ورزی ہے۔سرکلر قانون کی تشریح نہیں بلکہ اس میں غیر قانونی شرط شامل کر رہا ہے۔ پنشن کا حق بنیادی آئینی حق ہے، سرکاری تاخیر جرم کے زمرے میں آتی ہے۔

مزید خبریں