اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) دنیا بھر میں سوشل میڈیا کا استعمال روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، اور نوجوان نسل، خاص طور پر 12 سے 17 سال کی عمر کے بچے اور بچیاں، اس لت میں بری طرح مبتلا ہو چکے ہیں۔ TikTok جیسا پلیٹ فارم، جو بظاہر تفریح اور اظہارِ رائے کے لیے متعارف کروایا گیا تھا، آج نہ صرف بچوں کی اخلاقی تربیت کو متاثر کر رہا ہے بلکہ کئی خوفناک اور المناک واقعات کا باعث بھی بن چکا ہے۔
حال ہی میں پاکستان میں ایک ایسا دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا جس نے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ 17 سالہ ٹک ٹاکر ثناء یوسف کا بے دردی سے قتل کر دیا گیا، اور یہ قتل کسی اجنبی نے نہیں بلکہ اس کے ایک قریبی ساتھی ٹک ٹاکر نے کیا۔ یہ واقعہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے: اس تعلق کی ابتدا کیسے ہوئی؟ والدین نے اپنے بچے کے سوشل میڈیا روابط پر نظر کیوں نہ رکھی؟ اور کیا TikTok جیسے پلیٹ فارم پر بچوں کو کھلی آزادی دینا دانشمندانہ فیصلہ ہے؟
TikTok کی سرکاری پالیسی کے مطابق 13 سال سے کم عمر افراد کو اس ایپ کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاتی۔ 13 سے 15 سال کی عمر کے صارفین کے اکاؤنٹ خود بخود پرائیویٹ ہوتے ہیں، اور 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے ڈائریکٹ میسجنگ کی سہولت دستیاب نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ “فیملی پیئرنگ” جیسا فیچر بھی موجود ہے جو والدین کو بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ان پالیسیز پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ بچے جعلی تاریخِ پیدائش ڈال کر اکاؤنٹس بنا لیتے ہیں، اور والدین اکثر یا تو لاعلم ہوتے ہیں یا مکمل طور پر غفلت کا شکار۔
یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ یورپ، امریکہ، اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی اس خطرناک رجحان سے متاثر ہو رہے ہیں۔ وہاں بھی سکول کے بچے گھنٹوں TikTok پر گزارتے ہیں، غیر اخلاقی ویڈیوز اپلوڈ کرتے ہیں، اجنبیوں سے رابطے قائم کرتے ہیں، اور یہی روابط اکثر جنسی استحصال، بلیک میلنگ یا حتیٰ کہ قتل جیسے جرائم تک جا پہنچتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی آزادی نے بچوں کو نہ صرف قبل از وقت خودمختاری دے دی ہے بلکہ ان کے ذہنی، اخلاقی اور جذباتی توازن کو بھی بگاڑ دیا ہے۔
ایک بچے کو موبائل فون دے دینا والدین کے لیے وقتی طور پر آسانی پیدا کر سکتا ہے، مگر طویل مدتی طور پر یہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ والدین اکثر نہ تو بچوں کے موبائل چیک کرتے ہیں، نہ ان کے دوستوں اور روابط پر نظر رکھتے ہیں، اور نہ ہی ان کی آن لائن سرگرمیوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اکثر والدین خود بھی سوشل میڈیا کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ وہ بچوں کو درکار توجہ نہیں دے پاتے۔ نتیجتاً بچے بدتمیزی، گستاخی، اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہو رہے ہیں۔ بڑوں کا ادب ختم ہوتا جا رہا ہے، اور فالوورز کی دوڑ میں بچے جھوٹ، فریب اور فحاشی جیسے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ ان سب عوامل کا منفی اثر بچوں کی ذہنی صحت پر پڑ رہا ہے، اور وہ تنہائی، ڈیپریشن، اور اضطراب جیسے مسائل سے دوچار ہو رہے ہیں۔
اس بگڑتی ہوئی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے فوری اور جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ریاست کو چاہیے کہ وہ TikTok سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو باقاعدہ ریگولیٹ کرے، اور بچوں کے تحفظ کے لیے سخت قوانین بنائے اور ان پر عمل درآمد یقینی بنائے۔ والدین کی تربیت کے لیے آگاہی مہمات شروع کی جائیں تاکہ وہ نہ صرف سوشل میڈیا کے خطرات کو سمجھیں بلکہ اپنی ذمہ داری بھی محسوس کریں۔ اسکولوں کی سطح پر بچوں کو سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی اثرات کے بارے میں تعلیم دی جائے اور انہیں ذمہ دارانہ استعمال کا شعور دیا جائے۔ TikTok کمپنی کو بھی اپنی پالیسیز پر سختی سے عمل کروانا ہوگا اور ایسے تکنیکی فیچرز متعارف کروانے ہوں گے جو جعلی اکاؤنٹس کو روکے، جیسے چہرے کی شناخت یا حکومتی ID کی تصدیق کا نظام۔
اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔ میڈیا، علما، اور سماجی کارکنوں کو اخلاقی اقدار کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، تاکہ نئی نسل کو ایک متوازن، محفوظ اور بااخلاق ماحول فراہم کیا جا سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا یا TikTok بذاتِ خود خطرناک نہیں ہیں۔ اصل خطرہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ان پلیٹ فارمز کا غلط استعمال کیا جاتا ہے، اور والدین، اساتذہ اور ادارے اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتتے ہیں۔ آج ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں یا صرف مشہور۔ یہی وہ فیصلہ ہے جو ہمارے بچوں کے حال اور مستقبل کا تعین کرے گا۔