پیر,  28 اپریل 2025ء
اسلامی مالیاتی شعبے کی ترقی کے لیے بنیادی قانون سازی اور مضبوط شریعہ گورننس کی فوری ضرورت ہے: ماہرین

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) اسلامی بینکوں اور غیر بینک مالیاتی اداروں کی پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر مخصوص بنیادی قانون سازی،  اکاؤنٹنگ اینڈ آڈیٹنگ آرگنائزیشن فار اسلامک فنانشل انسٹی ٹیوشنز  (AAOIFI)کے مقامی مالیاتی تناظر کے مطابق معیاروں کو جلدی اپنانا، اور مضبوط شریعہ گورننس فریم ورک کا قیام ضروری اقدامات ہیں۔ اس کے لیے باضابطہ ریگولیٹری، قانونی اور ادارہ جاتی سطح پر ہم آہنگ کوششوں کی ضرورت ہے کیونکہ کوئی بھی مالیاتی فریم ورک تنہا کام نہیں کر سکتا۔ یہ بات ممتاز مالیاتی اور قانونی ماہرین نے اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں اسلامی بینکوں اور غیر بینک مالیاتی اداروں کے لیے قانونی فریم ورک پر ہونے والے سیشن “پاکستان میں شریعت پر مبنی اسلامی مالیاتی نظام ” کے دوران اجاگر کی۔ اس بحث میں سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، اسلامی بینکوں، تعلیمی اداروں اور قانونی ماہرین کی وسیع شرکت دیکھنے کو ملی۔ اہم مقررین میں جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور، وفاقی شرعی عدالت کے عالم جج، طارق نسیم، ایس ای سی پی کے اسلامی مالیات کے شعبے کے سربراہ، توصیف الرحمن، ایس ای سی پی کے منیجنگ ایگزیکٹو، اور ڈاکٹر محمد ایوب، رفا سینٹر آف اسلامک بزنس کے سابق ڈائریکٹر، شامل تھے۔ سیشن کی میزبانی ڈاکٹر عتیق الظفر خان نے کی، جو آئی پی ایس کے بورڈ ممبر ہیں۔ طارق نسیم نے غیر بینک مالیاتی اداروں کے لیے مجوزہ قانونی فریم ورک پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور اس بات کی نشاندہی کی کہ اس شعبے کی ترقی میں بنیادی رکاوٹ ، ایک جامع اور مخصوص ڈھانچہ کی غیر موجودگی ہے۔ ڈاکٹر ایوب نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے جاری کردہ شریعہ گورننس فریم ورک کا موازنہ پیش کیا، اور اس بات پر روشنی ڈالی کہ شریعہ گورننس میں قانونی اور ضابطہ جاتی خلا نے اسلامی بینکاری کے عملی میدان میں مسائل پیدا کئے، اور اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ اس نظام میں فوری طور پر اصلاحات کی جائیں۔ جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے اسلامی مالیاتی شعبے میں شریعت کے اصولوں کی پیروی اور ضابطہ کی وضاحت کے لیے ایک مضبوط قانونی فریم ورک کی ضرورت کو اجاگر کیا۔ مقررین نے ان سفارشات کے بناء پر شریعت سے ہم آہنگ اور شریعت پر مبنی مالیات کے درمیان فرق کو واضح کیا اور تجویز پیش کی کہ سطحی مطابقت سے آگے بڑھ کر ایک حقیقی اخلاقی، جامع مالیاتی نظام کی طرف قدم بڑھایا جائے، جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہو۔ عالمی اسلامی مالیاتی نظام کا حجم 2027 تک، سات کھرب ڈالر تک پہنچ جانے کو پیش طنظر رکھتے ہوئے، ماہرین نے پاکستان کو اسلامی مالیات کے مرکز کے طور پر ابھارنے کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔ شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ چونکہ AAOIFI کے اصول و معیارات وسیع مشاورت کے ذریعے تیار کیے جاتے ہیں، اس لیے ان کو سٹیٹ بنک اور ایس ای سی پی کی طرف سے پاکستان کے سرمایہ کاری اور مالیاتی منڈیوں کے مطابق ضروری ترمیم کے ساتھ اپنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ اسلامی بینکوں اور غیر بینک مالیاتی اداروں کو ضابطہ کارمیں لانے کے لیے بنیادی قوانین کی ضرورت ہے، کیونکہ موجودہ ضوابط زیادہ تر ثانوی قانون سازی پر مبنی ہیں۔ شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ سٹیٹ بنک اور ایس ای سی پی کو اسلامی قانون اور مالیات میں مہارت رکھنے والے شریعت کے علما کے انتخاب کے لیے سخت معیار اور ایک انتخابی طریقہ کار قائم کرنا چاہیے تاکہ دونوں ، بینکوں اور غیر بینک مالیاتی اداروں، کے لیے گورننس اور قانونی فریم ورک کو مضبوط بنایا جا سکے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے علما کو ایک وقت میں صرف ایک ادارے کے لیے خدمات انجام دینی چاہیے، اور تقرریوں کو مرکزی نظام کے ذریعے منظم کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ، ہر فتویٰ یا شریعہ بورڈ کے فیصلے کو قرآن، سنت، اور اجماع کے ذرائع سے واضح طور پر منسلک کیا جانا چاہیے۔ مزید برآں، وفاقی شرعی عدالت کو مختلف اداروں کے درمیان شرعی آراء کے حوالے سے تنازعات میں فیصلہ کرنے والا ادارہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سیشن میں پروفیسر خورشید احمد، جو اسلامی معیشت اور مالیات کے معروف سکالر، مصلح اور سیاستدان تھے، کو ان کی زندگی بھر کی خدمات کے لیے خراج تحسین پیش کیا گیا، اور ان کے اسلامی بینکنگ کے تجربات پر ان کے خیالات بھی شامل کیے گئے۔

مزید خبریں