اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز):پروفیسر خورشید احمد کی رحلت سے قومی زندگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے، جس کا بھرنا آسان نہیں ہے۔ ان کی پوری زندگی وضع داری، انسانی وقار کی سربلندی، قانون و انصاف کی عملداری ، اور دین کی بے لوث خدمت سے عبارت رہی۔ یہی وجہ ہے کہ آراء اور نظریات میں اختلاف رکھنے والے حلقوں میں بھی پروفیسر خورشید احمد کو ویسا ہی احترام حاصل تھا جیسے ان کے ہم خیال حلقوں میں۔ ان تأثرات کا اظہار مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد کی ایک بڑی تعداد نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز آئی پی ایس میں منعقدہ تقریب میں کیا جس کا انعقاد ممتاز دانش ور اور سابق رکن سینٹ پروفیسر خورشید احمد کی وفات پر تعزیت اور دعا کے لیے کیا گیا تھا۔پروفیسر خورشید احمد 13 اپریل کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے تھے۔ اس موقع پر سابق وفاقی وزیر اور سینٹ کے رُکن مشاہد حسین سید نے پروفیسر خورشید احمد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر خورشید احمد لوگوں کو باہم جوڑنے اور قومی أمور پر اتفاق پیدا کرنے کا غیر معمولی ہنر رکھتے تھے۔ ان کی شخصیت اور سوچ جغرافیائی، نظریاتی، یا سیاسی حدود سے بالاتر تھی۔ تقریباً 22 برس تک سینیٹ کی رکنیت کے دور میں انھوں نے ہر معاملے پر بھرپور اخلاص اور محنت سے عوامی و ملکی مفاد کی ترجمانی کی۔ سینٹ کے سابق ارکان فرحت اللہ بابر اور جاوید جبار نے بھی ان کی فہم و فراست، محنت اور عوامی بھلائی کے جذبے کو سراہا جو ان کی پارلیمانی خدمات کا خاصہ تھا۔ سابق وفاقی وزیر اور معروف قانون دان احمر بلال صوفی نے بتایا کہ پروفیسر خورشید احمد بین الاقوامی نظام اور قانون کو سب سے زیادہ جاننے والے اراکینِ پارلیمان میں سے تھے۔ ان کی شخصیت دنیا بھر میں مسلم اور غیر مسلم دنیا میں علمی و فکری تحریکوں پر اثر انداز ہوئی۔ سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے قیام کو پروفیسر خورشید احمدکی بڑی علمی خدمت شمار کیا اور مختلف شعبہ جات، بالخصوص کشمیر سے متعلق ان کی سربراہی میں ہونے والے کام کو سراہا۔ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ کے رکن ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ پروفیسر خورشید احمد مستقبل بِین نظر رکھتے تھے اور انھوں نے اسلام، پاکستان اور امت مسلمہ کے حوالے سے ان چیلنجز کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا جو آج درپیش ہیں۔ انھوں نے نہایت ہمت، فکرمندی اور تندہی سے پاکستان اور امتِ مسلمہ کی فلاح کے لیے جدوجہد کی۔ معروف عالمِ دین مولانا زاہد الراشدی نے تعلیم، فکری مباحث اور قومی منظرنامے میں تعمیری کردار کے حوالے سے پروفیسر خورشید احمد کو ایک منفرد شخصیت قرار دیا۔ سودی نظام کے خاتمے کی تحریک میں ان کی فکری پختگی، حکمت اور فنی بصیرت واضح نظر آتی ہے۔ رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور مرحوم کے بھائی ڈاکٹر انیس احمد نے کہا کہ پروفیسر خورشید نے مولانا مودودی کے سیاسی، معاشی اور سماجی افکار کو نہایت وضاحت اور اخلاص کے ساتھ فروغ دیا۔ ان کے قائم کردہ ادارے آج بھی اسلامی سیاست، معیشت اور معاشرت میں موجود مسائل کے حل کو علمی انداز میں اجاگر کر رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب کے صاحبزادے حارث احمد نے کہا کہ ان کے والد کو اسلام اور پاکستان سے بے پناہ محبت تھی، اور اس مقصد کے لیے وہ ہر وقت مختلف الخیال افراد کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار رہتے تھے۔ آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن نے اختتامی کلمات میں پروفیسر خورشید کے ساتھ طویل رفاقت کا ذکر کرتے ہوئے انہیں ایسی آفاقی اقدار کا پیکر قرار دیا جو آئندہ نسلوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پروفیسر صاحب کی زندگی مقصد اور بصیرت سے بھرپور تھی، جو ہر ذاتی غرض سے بالاتر ہو کر اسلام اور پاکستان کے لیے وقف تھی۔ تقریب میں پروفیسر خورشید احمد کی زندگی، افکار اورکارناموں پر مبنی ایک ویڈیو بھی دکھائی گئی۔ اس موقع پر شرکاء کو ایک چیٹ بوٹ سے بھی متعارف کرایا گیا، جو مرحوم کے منتخب افکار پر مبنی مواد سے استفادہ کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر سوالات کے جوابات دینے کے لیے آئی پی ایس میں تیار کیا جا رہا ہے۔
