اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز) سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کلبھوشن ہو یا کسی اور ملک کا شہری، کونسلر رسائی تو سب کے لیے ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کی درخواستوں پر سماعت کی۔
مزید پڑھیں: ایس ایچ او کی کرسی پر ٹک ٹاک بنانے پر معطلی، آئی جی اسلام آباد کا سخت نوٹس
سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ ٹرائل کے لیے قانونی گراؤنڈز تو دستیاب ہیں لیکن سویلین ملزمان کو اپنی مرضی کے وکیل تک رسائی کا حق میسر نہیں دیا گیا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے شاہ زمان کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں بھی یہی مسئلہ اٹھایا گیا تھا۔ خواجہ حارث نے وضاحت کی کہ شاہ زمان کیس میں یہ بات تسلیم کی گئی کہ گراؤنڈز موجود تھے، لیکن اپنی پسند کے وکیل تک رسائی نہیں دی گئی۔
خواجہ حارث نے مزید کہا کہ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 کے تحت غیر ملکی شہریوں کو فئیر ٹرائل کا حق حاصل ہے، لیکن کونسلر تک رسائی کو اپیل کا حق نہیں کہا جا سکتا، کلبھوشن یادیو کو بھی ویانا کنونشن کے تحت کونسلر رسائی دی گئی، مگر اپنے شہریوں کو ایسا حق نہیں دیا جا رہا، جو افسوسناک ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کلبھوشن ہو یا کسی اور ملک کا شہری، کونسلر رسائی تو سب کے لیے ہونی چاہیے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ اگر ملزم اپنی مرضی سے وکیل مقرر نہ کر سکے تو کیا حکومت ان کے لیے وکیل فراہم کرتی ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی ہاں، ایسی صورت میں حکومت سرکاری وکیل کی سہولت دیتی ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ غیر ملکی مجرموں کے معاملے میں جس ملک سے وہ تعلق رکھتا ہے، وہی ملک سینڈنگ اسٹیٹ کہلاتا ہے۔ جسٹس مظہر نے کہا کہ ویانا کنونشن کے مطابق کلبھوشن کے معاملے میں بھارت سینڈنگ اسٹیٹ ہی ہے۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔