منگل,  25 مارچ 2025ء
صحافی حامد میر کا تکبرانہ انداز ، تنخواہوں سے محروم صحافیوں کو کیسے نظر انداز کردیا؟ ویڈیو وائرل

اسلام آباد (شہزاد انور ملک) پاکستان کے معروف اینکر پرسن حامد میر نے ورکرز کی تنخواہوں کے حوالے سے اظہار یکجہتی کرنے والے افراد کے ساتھ انتہائی تکبر کا برتاؤ کیا۔ جب ان سے کارکنوں کے احتجاج میں شرکت کی درخواست کی گئی، تو حامد میر نے ایک نہایت غیر متوقع جواب دیا، “میرا اور آپ کا مسئلہ ایک ہے، لیکن کیا آپ لوگوں نے کبھی میرے مسئلے پر میرے ساتھ شریک ہونے کی کوشش کی؟ جب آپ نہیں ہوتے تو میں بھی آپ کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتا۔”

حامد میر کا یہ جواب ان کے تکبر کی عکاسی کرتا ہے اور یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ وہ کیسے اپنے پیچھے صحافتی برادری کی قربانیوں اور حمایت کو بھلا سکتے ہیں۔ ایک ایسا وقت تھا جب حامد میر کو کسی بھی مسئلے پر صحافتی برادری کی مکمل حمایت حاصل ہوتی تھی۔ خاص طور پر جب وہ کراچی کے ہسپتال میں زیر علاج تھے، تب پورے ملک میں ایک نعرہ گونج رہا تھا، “میں بھی حامد میر ہوں۔” اس وقت صحافتی برادری نے ان کی حمایت کی تھی، لیکن اب وہ اپنی حمایت کی ضرورت میں دوسروں کو جواب دینے کے بجائے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر رہے ہیں۔

حامد میر کا یہ رویہ ان کے کردار اور انسانیت کے بارے میں سوالات اٹھاتا ہے۔ کیا وہ حقیقتاً وہ اصولی صحافی ہیں جو دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، یا صرف اپنے ذاتی مفادات کو مقدم رکھتے ہیں؟ اس صورتحال نے نہ صرف صحافتی برادری بلکہ عوام میں بھی حامد میر کی شبیہ پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

مزید پڑھیں: صحافی حامد میر کا تکبرانہ انداز ، تنخواہوں سے محروم صحافیوں کو کیسے نظر انداز کردیا؟ ویڈیو وائرل

پنجابی یونین آف جرنلسٹس کے چیئرمین جبار ملک نے جب حامد میر سے بات کرنی چاہی تو ان کا کہنا تھا، “جب حامد میر کو آف ایئر کردیا گیا تھا تو صحافتی برادری نے ان کے حق میں آواز بلند کی تھی، لیکن اب حامد میر تنخواہوں سے محروم صحافیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا، “حامد میر خود وی ایٹ کروڑوں کی گاڑی میں گھوم رہے ہیں، جبکہ صحافی تنخواہ سے محروم ہیں۔ حامد میر کو پوری صحافتی برادری سے اپنے رویے پر معذرت کرنی چاہیے۔” جبار ملک نے یہ بھی کہا کہ “اصولاً حامد میر کو جنگ جیو گروپ سے ہٹ جانا چاہیے کیونکہ میر شکیل الرحمن صحافیوں کے ساتھ ظلم کر رہا ہے۔”

یہ صورتحال حامد میر کی شخصیت اور ان کے اصولوں پر سوالات اٹھاتی ہے، جو صحافتی برادری کے لیے ایک سنگین تشویش کا باعث بن رہی ہے۔

مزید خبریں