جمعه,  21 فروری 2025ء
بدلتے بین الاقوامی منظر نامے میں ، عالمی و علاقائی تعلقات متوازن رکھنے کی لیے ، کثیر جہتی ڈپلومیسی پاکستان کے لیے ضروری قرار

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز):عالمی نظام میں رونما ہوتی تبدیلیوں کے تناظر میں پاکستان کے لیے ایک مستعد اور عملی کثیر جہتی پالیسی اپنانا ناگزیر ہے تاکہ عالمی و علاقائی تعلقات میں توازن قائم کیا جا سکے اور عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو مستحکم کیا جا سکے۔ ایسی حکمتِ عملی ملک میں داخلی سطح پر توازن کے ساتھ مل کر نہ صرف روس جیسے طاقتور ممالک کے ساتھ تعاون کو قابلِ عمل بنائے گی، بلکہ ایسے دیگر مواقع سے فائدہ اٹھانے کی راہ میں حائل چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی مددگار ثابت ہو گی۔ تاہم اس سے ایک ایسے شمولیت پسند عالمی نظام کی ضرورت بھی اجاگر ہوتی ہے جو نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں اور متنوع علاقائی مفادات کو مدِ نظر رکھ کر اس کے جگہ پیدا کر سکے۔ ان خیالات کا اظہار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں ہونے والے ایک ہائبریڈ سیمینار بعنوان ‘بدلتے ہوئے عالمی نظام میں پاکستان اور روس کے تعلقات’ کے دوران کیا گیا، جو کہ پہلی پاکستان-روس بین الاقوامی کانفرنس کے ایک حصّے کے طور پر روس کی کازان فیڈرل یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز ، اور فیڈرل اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ساتھ مل کر منعقد کیا گیا تھا۔ پشاور یونیورسٹی کے پاکستان اسٹڈیز سینٹر کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر فخر الاسلام کے زیرِ قیادت ہونے والے اس سیشن سے چئیرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، سابق سفیر سیّد ابرار حسین، بحریہ یونیورسٹی کی فیکلٹیی آف ہیومینیٹیز اینڈ سوشل سائنسز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر آدم سعود، نسٹ یونیورسٹی کے سینٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ اسٹیبیلیٹیی کے سابق ڈین بریگیڈئیر (ر) طغرل یمین، بحریہ ہونیورسٹی اسلام آباد کی سینئیر اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سائرہ نواز عباسی ، اور انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجیک اسٹڈیز اسلام آباد کے ریسرچ ایسو سی ایٹ تیمور فہد خان نے خطاب کیا۔ اپنے کلیدی خطاب میں پروفیسر ڈاکٹر آدم سعود نے کہا کہ عالمی طاقت اور اسٹریٹجک اتحادوں میں تبدیلی دنیا کو کثیر قطبی نظام کی طرف لے جا رہی ہے۔ یہ تبدیلی ممالک کے لیے اپنے قومی مفادات کو آگے بڑھانے کے مختلف مواقع پیدا کرتی ہے اور علاقائی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ تاہم، یہ سب صرف پاکستان کے لیے کثیر جہتی خارجہ پالیسی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس حکمت عملی کے تحت مستقل خارجہ تعلقات کے لیے اقتصادی اور سیاسی استحکام کو ترجیح دینی چاہیے۔ اس تناظر میں یہ روس کے ساتھ دفاعی تعاون، پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن جیسی شراکت داری، روس کے خام تیل کی رعائیتی درآمدات، اور تجارت، ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر اور زراعت کے میدانوں میں تعاون کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ بھی ٹرانز افغان ریلوے ، اور نارتھ ساوتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور جیسے سہ فریقی منصوبوں کے قابلِ عمل مواقع فراہم کرتا ہے۔ تاہم، اس ارتقائی منظرنامے کے ساتھ ساتھ کچھ چیلنجز بھی موجود ہیں، جن میں روس کے بھارت کے ساتھ تعلقات، مشترکہ منصوبوں پر پابندیاں، کم دوطرفہ تجارت، محدود عوامی رابطے، دہشت گردی، انرجی سیکیورٹی، اور جیوپولیٹیکل صف بندیاں شامل ہیں۔ بریگیڈیئر (ر) تغرل یمین نے کہا کہ سپلائی چین میں خلل، گندم، خوردنی تیل، اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ، دفاعی معاہدوں کا معطل ہونا اور روس-یوکرین جنگ کے بعد جیوپولیٹیکل دباؤ کی وجہ سے پاکستان کے اقتصادی تعلقات یوکرین کے ساتھ متاثر ہوئے۔ تاہم، پاکستان نے اپنی وسیع تر ملٹی ویکٹر خارجہ پالیسی کے تحت ایک عملی حکمت عملی اپنائی، جس میں وہ اپنے درآمدات میں تنوع لایا، گندم کی فراہمی کے لیے روس اور قازقستان کی طرف رجوع کیا، اور روس اور یوکرین کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اپنی سفارتی حکمت عملی کو دوبارہ ترتیب دیا، جس نے پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹتے ہوئے اپنے اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات کا تحفظ کرنے میں مدد دی۔ اس بات کی حمایت کرتے ہوئے ڈاکٹر سائرہ نواز عباسی نے کہا کہ پاکستان اور روس مشترکہ چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ایس سی او، بریکس، اور اقوام متحدہ جیسے عالمی فورمز کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس سے دوطرفہ تعلقات مضبوط ہوں گے، اسٹریٹجک خود مختاری میں اضافہ ہوگا، اتحادیوں میں تنوع آئے گا، اور مغربی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرتے ہوئے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھایا جا سکے گا۔ اسی نقطہ نظر کی تائید کرتے ہوئے تیمور فہد خان نے کہا کہ پاکستان کی عالمی پوزیشننگ کو مستحکم کرنے کے لیے داخلی چیلنجز کو ترجیح دینا ضروری ہے۔ ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے داخلی سطح پر توازن، جس میں اداروں کی مضبوطی، قانون کی حکمرانی، اقتصادی لچک، سماجی ہم آہنگی، انسانی ترقی، اور انفراسٹرکچر کی ترقی شامل ہے، پاکستان کے لیے اہم ہیں۔ اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے کہا کہ اگرچہ 1945 کے بعد سے عالمی نظام میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، لیکن بنیادی حکمرانی کا طریقہ کار جو قومی مفادات پر مرکوز ہے، زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ طریقہ کار طویل مدتی استحکام کے لیے پائیدار ماڈل فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان اور روس کی ارتقائی مشغولیت کے طریقے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حکمرانی کے ایک متبادل طریقہ کار کی ضرورت ہے جو انسان پر مرکوز ترقی، منصفانہ عالمی پالیسیوں، اور ایسے جامع کثیر الجہتی اصولوں کو ترجیح دے جو ابھرتی ہوئی طاقتوں اور مختلف علاقائی مفادات کو جگہ دے سکے۔

مزید خبریں