راولپنڈی(روشن پاکستان نیوز)سندھ اسمبلی کے اراکین (ایم پی) ایز(، سول سوسائٹی کے نمائندگان، خواتین کے حقوق کے کارکنان، سرکاری حکام اور پانی کے ماہرین نے منگل کے روز ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ایک ورکشاپ کے دوران سندھ کی دیہی خواتین کو پانی کے وسائل کے انتظام میں بااختیار بنانے کی اشد ضرورت پر زور دیا ہے۔ یہ ورکشاپ پوٹھوہار آرگنائزیشن فار ڈویلپمنٹ ایڈوکیسی (پودا PODAاور واٹر ایڈ پاکستان نے مشترکہ طور پر ایک مقامی ہوٹل میں منعقد کی۔ ورکشاپ کا بنیادی مقصد پانی، نکاسی آب، اور حفظان صحت واش کے قانونی اور پالیسی فریم ورک میں صنفی حساسیت، جامع، اور ماحولیاتی لحاظ سے مستحکم طریقوں کو فروغ دینا تھا۔ اس ایونٹ کا مقصد موجودہ خامیوں کو ختم کرنا، واش میں خواتین کی قیادت کو فروغ دینا، اور سب کے لیے پائیدار رسائی کو یقینی بنانا تھا۔سندھ کی وزیر برائے ترقی خواتین، محترمہ شاہین شیر علی نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی، جبکہ سندھ اسمبلی کی اراکین محترمہ تنزیلہ قمبرانی، محترمہ ندا کھوڑو، اور محترمہ یاسمین شاہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ دیگر مقررین میں محترمہ ثمینہ نذیر، ایگزیکٹو ڈائریکٹر PODA، میاں محمد جنید، کنٹری ڈائریکٹر واٹر ایڈ پاکستان، اور محترمہ رحیمہ پنہور (واٹر ایڈ پاکستان) شامل تھیں۔ سندھ کے ایک دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک شرکا نے کہا، صدیوں پرانی سوچ کہ پانی لانا اور گھریلو کام کاج صرف خواتین کی ذمہ داری ہے کو اب ختم ہونا چاہیے، جس سے اس بات کی اہمیت اجاگر ہوئی کہ خواتین پر غیر متناسب بوجھ ڈالنے والے روایتی صنفی کرداروں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ورکشاپ کے شرکا کا اتفاق تھا کہ پانی کے انتظام سے متعلق فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی فعال شمولیت صرف صنفی مساوات کا معاملا نہیں بلکہ دیہی برادریوں میں پائیدار اور مثر پانی کے حل کو یقینی بنانے کے لیے بھی ضروری ہے۔ مقررین نے نشاندہی کی کہ سب سے زیادہ ماحولیاتی لحاظ سے متاثرہ کمیونٹیز، جو زیادہ تر دیہی علاقوں میں رہتی ہیں، بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ یہ برادریاں اکثر شدید موسمی حالات جیسے کہ سیلاب، خشک سالی، اور شدید گرمی کی لہروں کا سامنا کرتی ہیں، جو نہ صرف زندگیوں کو متاثر کرتی ہیں بلکہ روزگار کے ذرائع کو نقصان پہنچاتی ہیں اور واش کی سہولیات سمیت بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیتی ہیں۔ انہوں نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ ناقص واش سہولیات اور غیر معیاری نکاسی آب کے باعث خواتین اور بچیاں غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں۔ خواتین پر بنیادی طور پر پانی جمع کرنے، صفائی کا انتظام کرنے، اور دیکھ بھال کے کاموں کی ذمہ داری عائد کی جاتی ہے، جو موسمی آفات کے دوران مزید مشکل ہو جاتی ہیں۔ سیلاب، آلودہ پانی کے ذرائع، اور نکاسی آب کے نظام کو پہنچنے والا نقصان صحت اور صفائی کے مسائل کو مزید بڑھا دیتا ہے، خاص طور پر پسماندہ برادریوں کے لیے۔ اس ورکشاپ کا مقصد موجودہ واش کے قانونی اور پالیسی فریم ورک کا جائزہ لینا تھا تاکہ صنفی مسائل اور ماحولیاتی مزاحمت کے پہلوں سے متعلق خامیوں اور چیلنجز کی نشاندہی کی جا سکے۔ اس کے علاوہ، اس ایونٹ کا مقصد خواتین کی قیادت کو فروغ دینا، ماحولیاتی مزاحمت کو بہتر بنانا، اور حکومت، سول سوسائٹی، تعلیمی اداروں، اور نجی شعبے کے شراکت داروں کے درمیان بہترین طریقوں اور اختراعی حلوں کے تبادلے کے لیے تعاون کو بڑھانا تھا۔
![](https://roshanpakistannews.com/wp-content/uploads/2025/02/Pakistan-team--300x171.jpg)