اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) اسرائیل-فلسطین تنازعہ کے نتائج نے فلسطین کے مسئلے کو خود اسرائیل کے لیے ایک موجودہ سوال کے طور پر دوبارہ تشکیل دیا ہے، جس سے اس کی تزویراتی ناکامیوں اور کمزوریوں کا پردہ فاش ہو گیا ہے جبکہ اس کے آباد کار استعماری صہیونی نظریے پر عالمی تشویش میں شدّت پیدا ہوئی ہے ۔ چونکہ یہ نظریہ نسلی بالادستی اور خارجیت پر مبنی ہے، اس لیے دو ریاستی حل ناقابل عمل ہے۔ اس کا واحد حل صہیونی منصوبے کو ختم کرکے انصاف اور فلسطینی عوام کی خودمختاری کے قیام کے میں مضمر ہے۔ یہ بات استنبول صباحتین زیم یونیورسٹی کے سینٹر فار اسلام اینڈ گلوبل افیئرز (سی آئی جی اے) کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر سمیع الآریان نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد میں منعقدہ “امن کا راستہ: فلسطین کے سوال کا حل” کے موضوع پر ہونے والے ایک پالیسی ڈائیلاگ کے دوران کہی ۔ اس سیشن سے آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن نے بھی خطاب کیا۔ ڈاکٹر سمیع الآریان نے دلیل دی کہ صیہونیزم کنٹرول کرنے اور حکومت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کسی بھی ریاست کو کچھ ایسا کرنے سے روکتا ہے جس سے اسے خطرہ محسوس ہو۔ انہوں نے کہا کہ صیہونیت کو ختم کرنا یہودیوں کے مذہب کی مخالفت کرنا نہیں ہے۔ اس کے بجائے، یہ جارحانہ اور جابرانہ نظام کے خلاف مزاحمت سے متعلق ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ جدوجہد انصاف پر مرکوز رہے۔ اس تناظر میں انہوں نے 7 اکتوبر 2023 کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں طویل عرصے سے جاری ان جارحانہ پالیسیوں کے نتیجے کے طور پر سمجھنا چاہیے جنہوں نے غزہ کو 16 سال محاصرے میں رکھا ، اسے کنٹرول کرنے کے اقدامات کیے، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا ۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کھلے عام فلسطینیوں کو محکوم بنانے کی پالیسیوں پر عمل پیرا رہی ہے، اور انہیں یا تو قبضہ قبول کرنے، بھاگ جانے یا موت کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ مزید برآں، اسرائیلی ریاست نے انتہا پسند دھڑوں کو مسلح کرکے، اور فلسطینی علاقوں پر یہودی دعووں کا ساتھ دینے والے اقدامات پرعمل دوآمد کرتے ہوئے آباد کاروں کے تشدد کی حمایت کی ہے۔ ڈاکٹر الآریان نے کہا کہ یہ فلسطینیوں کے لیے ان کی خود ارادیت اور آزادی کا معاملہ بن چکا ہے۔ تاہم مسلسل جاری فلسطینی مزاحمت نے اسرائیل کے دیرینہ یکطرفہ تسلط کو چیلنج کیا ہے۔ یہ خاص طور پر اس وقت واضح ہوا جب اسرائیل کی فوجی طاقت غزہ میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی، اوراب صیہونیت کو ایک آباد کار نوآبادیاتی نظریے کے طور پر اپنی قانونی حیثیت اور جارحانہ عزائم کے باعث چیلنجوں کا سامنا ہے۔ مزید برآں، انہوں نے کہا کہ حالیہ پیش رفت نے اسرائیل کی دفاعی حکمت عملیوں میں تیزی سے کمزوریوں کو بے نقاب کیا ہے، جن میں انٹیلی جنس کی ناکامیاں، ڈیٹرنس کی ناکامیاں، سیکورٹی کی خلاف ورزیاں، اور فوری حل حاصل کرنے میں ناکامی شامل ہیں۔ اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے نوٹ کیا کہ اس تنازعہ کے نتیجے نے روایتی طاقت کی حرکیات کو بھی چیلنج کیا ہے، جس سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے عالمی اداروں کی موروثی خامیاں بے نقاب ہوئی ہیں، جو کہ 1945 کے بعد کے ویٹو پاور والے بین الاقوامی نظام کی پائیداری کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ انہوں نے مزید روشنی ڈالی کہ فلسطینی جدوجہد اب میدان جنگ سے آگے نکل کر بیانیوں تک پھیل چکی ہے۔ یہ بھی ایک نیاعنصر یہ ہے کہ اس تنازعہ پر پہلے سے کہیں زیادہ، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے بڑے پیمانے پر بحث کی گئی اور اس میں حصہ لیا گیا، اس کے اثرات کو بڑھایا اور یہ عالمی بیانیہ حقیقی وقت میںتشکیل پایا۔ مسلم امہ کی آزادی اور گفتگو کو فعال طور پر تشکیل دینے میں اس کے کردار پر زور دیتے ہوئے رحمٰن نے نوٹ کیا کہ جہاں ڈیجیٹل دور نے غالب بیانیے کو چیلنج کرنا آسان بنا دیا ہے، اصل امتحان مسلمانوں کے عالمی تاثرات پر اثر انداز ہونے کے اس موقع کا مؤثر طریقے سے فائدہ اٹھانے اور اپنی مزاحمت کےمقاصد کو مضبوط کرنےکے کی متحد ہ کوششوں میں ہے۔
مزید پڑھیں: شمالی غزہ میں شہریوں کی واپسی: بے دخل کیے گئے فلسطینی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنے علاقوں کو لوٹ آئے