منگل,  14 جنوری 2025ء
لوگوں کا کورکمانڈر ہاؤس کے اندر جانا سکیورٹی کی ناکامی ہے، سپریم کورٹ

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلیز کے ٹرائل سے متعلق کیس کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا ہے کہ نو لوگوں کا کورکمانڈر ہاؤس کے اندر جانا سکیورٹی کی ناکامی ہے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے لیکن آج بھی دلائل مکمل نہ ہو سکے، سماعت کل تک کے لئے ملتوی کر دی گئی۔

دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے لیاقت حسین کیس کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ سول جرائم ملٹری کورٹ میں سویلینزکے ٹرائل کا مقدمہ ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا یہ ہے سویلینزکا کن حالات میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ کسی فوجی کو کام سے روکنے پر اکسانے کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا، سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی کہ ریٹائرڈ اہلکار سویلینز ہوتے ہیں۔ اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا سارا انحصار ایف بی علی کیس پر ہے،ایف بی علی کیس میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران دونوں ملوث تھے، موجودہ کیس میں کسی پر فوج کو کام سے روکنے پر اکسانے کا الزام ہے؟ آرمی ایکٹ کے تحت تو جرم تب بنے گا جب کوئی اہلکار شکایت کرے یا ملوث ہو۔

وزارت دفاع کے وکیل نے جواب دیا کہ فوج کا ڈسپلن جو بھی خراب کرے گا وہ ملٹری کورٹ میں جائے گا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا فوج کے قافلے پر حملہ کرنا بھی ڈسپلن خراب کرنا ہوگا؟ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کسی فوجی کا چیک پوسٹ پر سویلین سے تنازع ہو تو کیا یہ بھی ڈسپلن خراب کرنا ہوگا؟

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کا دائرہ جتنا آپ وسیع کر رہے ہیں اس میں تو کوئی بھی آ سکتا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ اس پہلو کو مدنظر رکھیں کہ ایف بی علی کیس مارشل لاء دور کا ہے، ذوالفقار علی بھٹو اُس وقت سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے، ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹانے کی کوشش میں ایف بی علی کیس بنا تھا، مارشل لاء اس وقت ختم ہوا جب آئین بنا تھا۔

وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے میں ایمرجنسی کے نفاذ کا ذکر موجود نہیں، ایف بی علی کیس میں جن افراد پر کیس چلایا گیا وہ ریٹائرڈ تھے۔ اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کنٹونمنٹ میں اگر کسی سپاہی کا سویلین کے ساتھ اختلاف ہو جائے تو کیس کہاں جائے گا؟

وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اختلاف الگ بات ہے،زمانہ امن میں بھی فوجی امور میں مداخلت پر سویلینز کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہی چلے گا، اس موقع پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ آخر کوئی ماسٹر مائنڈ بھی ہوگا، سازش کس نے کی؟

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سازش کرنے والے یا ماسٹر مائنڈ کا ٹرائل بھی ملٹری کورٹ میں ہی ہوگا، سویلینز کا ٹرائل اچانک نہیں ہورہا، 1967 سے قانون موجود ہے۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بطور وکیل وزارت دفاع ایک اہم سوال کا جواب دیں، کیا 9 مئی کے واقعات میں کسی فوجی افسر کے ملوث ہونے پر ٹرائل ہوا؟ 9 مئی کو لوگ بغیر ہتھیاروں کے کورکمانڈر ہاؤس کیسے پہنچ گئے؟ لوگوں کا کورکمانڈر ہاؤس کے اندر جانا تو سکیورٹی کی ناکامی ہے۔

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ مظاہرین پر الزام املاک کو نقصان پہنچانے کا ہے، 9 مئی کے واقعہ میں کسی فوجی افسر کا ٹرائل نہیں ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس د یے کہ ایف بی علی پر الزام ادارے کے اندر کچھ لوگوں سے ملی بھگت کا تھا، ادارے کے اندر سے کسی کی شراکت ثابت ہونا لازم ہے، ادارہ افراد پر ہی مشتمل ہوتا ہے اندر کے افراد سے تعلق کا بتائیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ میرا آپ سے ایک ویسے تعلق ہے، جو جرم سرزد ہوا اس میں کیا ہم دونوں کا تعلق تھایا نہیں وہ بتانا لازم ہو گا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کی سمت تبدیل کر کے انصاف کی فراہمی بہتر کی جاسکتی ہے، چیف جسٹس

وکیل نے کہا کہ اگر میں کسی دفاعی ادارے سے جا کر بندوق چرا لوں تو اس کا بھی ٹرائل ادھر ہی ہو گا، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ بندوق چوری میں پھر اندر سے کیا تعلق ثابت ہو گا؟جس بندوق سے سپاہی نے جنگ لڑنا تھی وہ چوری کر لینا اس کو کام سے روکناہی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے سوال کیا کہ بندوق چوری کی ایف آئی آر کہاں ہو گی؟ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ نو مئی کو کئی لوگ تو ویسے ہی چلے جا رہے تھے انہیں کچھ پتہ نہیں تھا کہاں جا رہے ہیں۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ان تمام لوگوں کا ٹرائل ملٹری کورٹ نہیں چلا،وکیل کا کہنا تھا کہ ڈسپلن کے بغیر فوج جنگ نہیں لڑسکتی،فوج کے فرائض میں رکاوٹ بھی ڈسپلن کی خلاف ورزی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے ایکٹ کے اطلاق کو کتنا پھیلایا جا سکتا ہے،اے ٹی اے آرمی ایکٹ سے سخت قانون ہے،اے ٹی اے میں سزائیں زیادہ ہیں، رعایت بھی نہیں ملتی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت کل تک کے لئے ملتوی کر دی۔

مزید خبریں