اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز)سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کوئٹہ میں اغوا ہونے والے بچے کے بازیابی کے لیے پہلا ازخود نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں لارجر بنچ نے لاپتہ بچوں کے حوالے سے درخواست پر سماعت کی، آئینی بنچ نے آئندہ سماعت پر تمام آئی جیز اور سیکرٹریز داخلہ کو طلب کر لیا۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ کوئٹہ میں 6 دن سے ایک اغوا بچہ نہیں ڈھونڈا جا رہا، بچے کے اغوا پر پورا صوبہ بند ہے لیکن حکومت کو فکر نہیں۔ بچے کے اغوا پر اسکول کے بچوں نے بھی جلوس نکالا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا کسی صوبے میں کوئی ادارہ یا کمیشن ہے جو مغوی بچوں پر کام کر رہا ہو؟ 18 ویں ترمیم کے بعد اب تو صوبوں کے پاس اختیارات ہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بلوچستان حکومت ایک بچہ تلاش نہیں کر پا رہی، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بچوں کا اغوا اہم ایشو ہے اس پر سرکاری وکلا کی تیاری نہیں۔
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ 2018 سے کیس چل رہا ہے اب تک بچے اغوا ہو رہے ہیں، ہر دوسرا مقدمہ بچوں کے اغوا کا آتا ہے، ایڈیشنل ایڈووکیٹ بلوچستان نے کہا کہ عدالت میں بچوں کے اغوا پر رپورٹ جمع کروا دیتا ہوں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہمیں رپورٹ نہیں بلکہ بچوں کے اغوا کا تدارک اور عمل چاہیے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ میں بنچ کے سربراہ سے درخواست کروں گا تمام آئی جیز کو بلایا جائے، یہ ملک میں ہو کیا رہا ہے؟
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کے پی کی رپورٹ میں ہر چیز پر دھول جھونکی گئی ہے، ہر طرف سے بارڈر کھلا ہے تو کیا ایسی گڈ گڈ رپورٹ ممکن ہے؟ قانون کی عمل داری یقینی بنائیں۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ایف سی پر اربوں خرچ ہوتے ہیں انکا سوشل ویلفیئر میں کیا کردار ہے؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کراچی میں بچے ٹریفک سگنلز پر بھیک مانگتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بھکاری بھیجنے میں تو اب ہم انٹر نینشل ہو چکے ہیں، بیرون ملک بھکاریوں کا جانا کتنے شرم کی بات ہے۔
بعدازاں آئینی بینچ نے کوئٹہ میں بچے کے اغواء کی بازیابی کے لیے از خود نوٹس کیس کی سماعت 28 نومبر تک ملتوی کر دی۔
مزید پڑھیں:کیا صدر، وزیر اعظم، اسپیکر اور پارلیمنٹیرینز سب کو نکال دیں؟ سپریم کورٹ