هفته,  07  ستمبر 2024ء
عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی یا اعتراض ہے تو بتائیں، چیف جسٹس کا فضل الرحمان سے مکالمہ

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز)چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مبارک ثانی کیس میں مولانا فضل الرحمان سے کہا کہ عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی یا اعتراض ہے تو بتائیں، دیگر اکابرین کو بھی سنیں گے۔

مبارک ثانی ضمانت کیس میں سپریم کورٹ میں پنجاب حکومت کی جانب سے دائر نظر ثانی درخواست پر سماعت میں  مفتی تقی عثمانی ترکیہ سے بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔

 جمعیت علما اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ  مولانا فضل الرحمن روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس کی اصلاح بھی ہونی چاہیے، پارلیمان کی بات سر آنکھوں پر ہے۔

قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین کی پچاسویں سالگرہ پر وہ خود پارلیمنٹ میں گئے، آپ کا شکریہ آپ ہمیں موقع دے رہے ہیں، کبھی کوئی غلطی ہو تو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے، جنہوں نے نظرثانی درخواست دائر کی ان کا شکریہ ادا کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کون کون سے علماء کرام عدالت میں موجود ہیں، ہم تعین کرنا چاہتے ہیں ہمیں کون کون رہنمائی کرے گا۔

قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی وکیل کو نہیں سنیں گے یہ واضح کر رہے ہیں،  تقی عثمانی صاحب میں معذرت چاہتا ہوں، وضاحت کرنا چاہتا ہوں جنہیں نوٹس کیا تھا ان کی جانب سے ہمیں بہت ساری دستاویزات ملیں، اگر ان سب کا بغور جائزہ لیتے تو شاید فیصلے کی پوری کتاب بن جاتی، ان تمام دستاویزات کو نہیں دیکھ سکا وہ میری کوتاہی ہے،  عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں اور اعتراض ہے ہمیں نشاندہی کریں، اگر کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو ہم سوال کریں گے، ہمارا ملک اسلامی ریاست ہے، عدالتی فیصلوں میں قرآن و حدیث کےحوالے دیتے ہیں، میں کسی غلطی سے بالاتر نہیں ہوں۔

علماء سے معاونت لینے کا فیصلہ

عدالت نے مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمان، مفتی شیر محمد اور موجود علماء سے معاونت لینے کا فیصلہ کرلیا،  ابو الخیر، محمد زبیر جماعت اسلامی کے فرید پراچہ بھی سپریم کورٹ کی معاونت کریں گے۔

مفتی تقی عثمانی کی عدالت سے استدعا

مفتی تقی عثمانی نے سپریم کورٹ فیصلے کے دو پیراگراف حذف کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ پیرا گراف نمبر 7 اور 42 کو حذف کیا جائے،  مفتی تقی عثمانی نے مقدمے سے دفعات ختم کرنے کےحکم میں بھی ترمیم کی استدعا کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت دفعات کا اطلاق ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ ٹرائل کورٹ پر چھوڑے،  اصلاح کھلے دل کے ساتھ کرنی چاہیے، عدالت نے سیکشن 298 سی کو مد نظر نہیں رکھا، معاملہ ایسا ہو تو لمبے فیصلے لکھنے پڑتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 6 فروری کا فیصلہ نظر ثانی کے بعد پیچھے رہ گیا ہے، اب آگے دیکھنا چاہیے، اگر سب علماء کی رائے فیصلے میں شامل ہوتی تو فیصلے کی کتاب بن جاتی۔

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News