اسلام آباد(محمد وقاص سے)پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیاسی رہنماؤں کے خلاف مخالفین کے پروپیگنڈے اور اور سوشل میڈیا پر بغیر تصدیق کچھ بھی پھیلانا ایک معمول سا بن گیا ہے جس پر زیادہ تر لوگ کسی نہ کسی حد تک یقین بھی کرنے لگتے ہیں۔
سیاست میں تنقید برائے اصلاح کی بجائے تنقید برائے تنقید کا عنصر زیادہ حاوی ہوتا جا رہا ہے، مگر ترقی یافتہ بیشتر ممالک میں ہتک عزت کے قوانین اور جھوٹی خبریں پھیلانے سے متعلق قوانین پر عمل درآمد سے کافی حد تک جھوٹے الزامات اور بے بنیاد خبریں پھیلانا کافی مشکل ہوتا ہے۔
لیکن پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں بڑے بڑے من گھڑت اور جھوٹے الزامات کی بنیاد پر حکمرانوں کی شہرت منفی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس ضمن میں گذشتہ کئی سالوں سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بغیر کسی نگرانی کے استعمال ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
پاکستان میں کارکردگی کی بجائے مخالفین کے خلاف پروپیگنڈے اور جھوٹے الزامات کی بنیاد پر لوگوں کو غلط سمت سوچنے پر مجبور کیا جارہا ہے، جس سے نہ صرف حکومتی شخصیات کو کارکردگی پر توجہ دینے سے روک کر اپنے خلاف مہمات پر قابو پانے کے لیے ٹائم صرف کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
اس طرح نہ صرف لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے بلکہ نظام پر عوام کا اعتماد بھی کم ہونے کا خدشہ ہے۔
جب سے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نوازنے چارج سنبھالا ہے ان کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے ۔
پی ٹی آئی کے حامی کارکنوں کی جانب سے کبھی انہیں ٹک ٹاکر وزیراعلیٰ کہاجاتا ہے تو کبھی اسطرح کے ملتے جلتے القابات سے پکاراجاتا ہے۔
ابھی حال ہی میں ایک مخالف سیاسی جماعت کی خاتون جو کہ برطانیہ سے ٹک ٹاک اکائونٹ چلا رہی ہیں انہوں نے مریم نواز کے خلاف انتہائی زہریلا پروپیگنڈا شروع کیا ہے جو نہ تو اخلاقی طور پر اور نہ ہی معاشرتی طور پر ایسے کام کی اجازت دیتا ہے ۔
اپنی ٹک ٹاک ویڈیو میں پی ٹی آئی کی حامی خاتون کارکن نے مریم نواز کو زیریلے سانپ سے تشبیہ دے ڈالی جو کہ انتہائی گری ہوئی اور گھٹیاترین حرکت ہے جس کی جتنی مذمت کی ہے کم ہے،خاتون ٹک ٹاکر نے اپنے ٹاک ٹاک اکائونٹ پر ایک سانپ کے اوپر مریم نواز کی تصویر لگا کپشن میں لکھا ہے کہ ’’یہ زہریلے سانپ ملک کو ڈس رہے ہیں ‘‘ایک ذی شعور انسان کا ایسے سوچنا اورایسی ٹک ٹاک بناناگری ہوئی حرکت کی انتہا ہے ۔
ہمیں سیاست سے بالاتر ہوکر انسانیت کے بارے میں بھی سوچنا چاہیےاور اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے ۔
اس سے قبل بھی مریم نواز کے خلاف پروپیگنڈا کیاگیا کہ ان کی کامپری ہنسیو گرلز ہائی سکول لاہور میں دورے کے دوران بنائی گئی ایک ویڈیو پر وزیر اعلیٰ مریم نواز کو خاتون پرنسپل نے کہا کہ ان کے آنے سے بچے کنفیوژ ہوتے ہیں جس پر انہیں مبینہ طور پر عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
تاہم جب چیف ایگزیکٹو ایجوکیشن اتھارٹی پنجاب پرویز اختر سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے۔ کسی استاد کو فارغ کیا گیا نہ تبادلہ کیا گیا ہے۔‘
اسی طرح سوشل میڈیا پر ایک اور مہم چلتی دکھائی دی کہ چند دن پہلے لاہور کے ایچیسن کالج میں آٹھ مارچ کو ایک تقریب میں مریم نواز نعرے بازی کے خوف سے نہیں آئیں اور بچوں نے انہیں مہمان نہ بنانے کی کالج انتظامیہ کو ای میلز کی تھیں۔
اس بارے میں ایچیسن کالج کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اس تقریب میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
دنیا میں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کا ایک دوسرے کے خلاف بیان دینا یا پروپیگنڈا کرنا ویسے تو معمول کی بات ہے لیکن کسی عہدیدار کو بلاوجہ ٹارگٹ کر کے سستی شہرت حاصل کرنا انتہائی نامناسب ہے۔
دنیا میں جب سے سوشل میڈیا نے فروغ پایا ہے پاپولسٹ لیڈروں کو فائدہ پہنچا ہے۔
ان کی کارکردگی بری بھی ہو تو مخالفین کو منفی پروپیگنڈے سے عوام میں غیر مقبول کر دیا جاتا ہے۔ جیسے امریکہ میں ٹرمپ، انڈیا میں مودی اور پاکستان میں عمران خان کی مثالیں موجود ہیں۔
ہمارے ہاں ہتک عزت سمیت جھوٹی معلومات پھیلانے سے متعلق قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا۔ اس لیے ریاست میں اخلاقی تربیت کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور سزا و جزا کا نظام مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔