کراچی(روشن پاکستان نیوز) ملک میں 15جولائی تک کپاس کی مجموعی قومی پیداوار میں 48 فیصد کی غیر معمولی کمی ریکارڈ کی گئی۔
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 15جولائی تک ملک بھر کی جننگ فیکٹریوں میں 4 لاکھ 42 ہزار روئی کی گانٹھوں کے مساوی پھٹی کی ترسیل ہوئی ہے۔
اعداد وشمار میں کہا گیا کہ مذکورہ مدت کے دوران پنجاب میں کپاس کی پیداوار 42 فیصد کی کمی سے ایک لاکھ 14ہزار گانٹھ رہی ہے اور سندھ میں بھی اس عرصے میں کپاس کی پیداوار 48 فیصد کی کمی سے 3لاکھ 28ہزار گانٹھ رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق زیرتبصرہ مدت کے دوران ٹیکسٹائل ملوں نے جننگ فیکٹریوں سے 3 لاکھ 75ہزار گانٹھوں کی خریداری کی ہے جبکہ گزشتہ برس یہ خریداری 6 لاکھ 92ہزار گانٹھ تھی۔
ایسوسی ایشن نے بتایا کہ ملک سے رواں سال بیرون ملک روئی کی برآمدات تاحال شروع نہیں ہوسکی ہے۔
پی سی جی اے کی رپورٹ میں خاص بات یہ ہے کہ کپاس کی پیداوار میں سرفہرست رہنے والے سندھ کے ضلع سانگھڑ میں بھی گزشتہ سال کی نسبت 46 فیصد کی کمی ہوئی اور ملک میں کپاس کی سب سے زیادہ 2لاکھ 63ہزار گانٹھوں کی پیداوار ہوئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ضلع سانگھڑ کا ملک کی مجموعی پیداوار کا 60 فیصد اور سندھ میں کپاس کی پیداوار کا 80 فیصد حصہ ہے، جس کی بڑی وجہ سندھ کے تمام ساحلی اور بلوچستان سے کپاس کی سانگھڑ کی جننگ فیکٹریوں میں آمد ہے۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ پچھلے سال کے مقابلے میں رواں سال کپاس کی پیداوار میں نمایاں کمی کی بڑی وجوہات میں وعدوں کے بعد روئی کی قیمتیں مداخلتی قیمت سے کافی کم ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے ٹی سی پی کے ذریعے روئی کی خریداری نہ کرنے سے کسانوں میں پھیلنے والی بد دلی کے باعث رواں سال کپاس کی کاشت میں نمایاں کمی اور منفی موسمی حالات کے باعث کپاس کی کاشت اور پیداوار متاثر ہونا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رواں سال فروری اور مارچ کے دوران درجہ حرارت میں نمایاں کمی اور مئی جون میں ریکارڈ اضافے کے باعث کپاس کی کاشت اور پیداوار میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کل بارشوں کے باعث بھی کئی علاقوں میں کپاس کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔
احسان الحق نے بتایا کہ جننگ سیکٹر پر عائد بھاری ٹیکسز کے باعث گزشتہ برس جننگ فیکٹریوں کی جانب سے 25لاکھ گانٹھوں کے لگ بھگ غیر دستاویزی فروخت کی گئی اور اس کی وجہ سے وفاقی حکومت نے رواں سال جننگ فیکٹریوں میں ”ٹریک اینڈ ٹریس“ سسٹم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ٹیکس چوری پر قابو پایا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں روئی کی غیر دستاویزی زیادہ خرید و فروخت سمجھی جاتی ہے ان علاقوں میں آج کل جننگ فیکٹریاں کافی حد تک فعال ہیں اس لیے حکومت یہ سسٹم فوری طور پر فعال کرنا چاہیے وگرنہ بعد میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں بجلی اور گیس کے بعد اب انٹرنیت کی بھی”لوڈ شیڈنگ“ شروع ہو گئی ہے جس سے کاروباری عمل میں کافی تعطل دیکھا جا رہا ہے اور پہلے سے ہی کم ہوتے ہوئے کاروبار اب سست انٹرنیٹ کے باعث مزید متاثر ہو رہے ہیں۔