اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستوں کی فہرست تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
پارٹی ذرائع کے مطابق مخصوص نشستوں کے لیے دی گئی فہرست کو تبدیل کیا جائے گا جس کے بعد پرانی فہرست میں شامل ناموں کو تبدیل کرنے پر مشاورت کا آغاز کردیا گیا ہے۔
پارٹی ذرائع نے بتایاکہ مخصوص نشستوں پر خواتین اور اقلیتی امیدواروں کی فہرست میں تبدیلی ہو گی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کے سامنے تبدیل شدہ فہرست اور نام رکھے جائیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کی سینیئر قیادت کو سابق فہرست میں موجود چند ناموں پر تحفظات ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے مخصوص نشستوں کیلئے نئی فہرست تیار کرنے کی تصدیق کی اور کہا کہ مخصوص نشستوں کیلئے نئی فہرست کی حتمی منظوری بانی پی ٹی آئی دیں گے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد قومی اسمبلی میں کون کونسے ایم این اے فارغ ہونے ان کے نام سامنے آگئے ہیں۔
مسلم لیگ ن :
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن 14 مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی۔ ن لیگ کی تمکین اختر نیازی، سائرہ افضل تارڑ، ہما اختر چغتائی، ماہ جبین عباسی، گلناز شہزادی کی نشستیں ختم،شمائلہ رانا، شازیہ فرید، آمنہ بتول، رابعہ نسیم فاروقی، صوبیہ شاہد، غزالہ انجم، شہلہ بانو اور شاہین کی نشستیں بھی ختم ہوگئیں۔اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی اقلیتی رکن نیلم کی نشست بھی ختم ہوگئی۔
پیپلزپارٹی :
پیپلز پارٹی کی قومی اسمبلی میں پانچ مخصوص نشستیں ختم ہوگئیں۔ پیپلز پارٹی کی عاصمہ ارباب عالمگیر، نعیمہ کنول، سمینہ خالد گھرکی، نتاشہ دولتانہ اور رمیش کمار وانکوانی کی نشستیں ختم ہوگئیں۔
جمیعت علماء اسلام :
جمیعت علماء اسلام کی قومی اسمبلی میں تین مخصوص نشستیں ختم ہوگئیں۔جے یو آئی کی نعیمہ کشور، صدف احسان اور جیمز اقبال کی نشستیں ختم ہوگئیں۔
پنجاب اسمبلی :
پنجاب اسمبلی کے مخصوص نشستوں پر معطل اراکین میں ن لیگ کی سعدیہ مظفر، فزا میمونہ، عابدہ بشیر، مقصوداں بی بی، عمارہ خان، صومیہ عطا، راحت افزا، رخسانہ شفیق، تحسین فواد ، فرزانہ عباس ،شگفتہ فیصل ، عظمی بٹ، ماریہ طلال، ساجدہ نوید، نسرین ریاض ، افشاں حسن ،آمنہ پروین،شہربانو،زیبا غفور، روبینہ نذیر،سیدہ سمیرا احمد ،سیدہ ثمرین تاج ،کنول نعمان ، صائمہ زاہد شامل ہیں ۔
پنجاب اسمبلی سے غیر مسلم نشست پر مسلم لیگ ن کے وسیم انجم ، طارق مسیح، بصرو جی پیپلزپارٹی فارغ ہوئے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی :
خیبر پختوانخوا اسمبلی سے 21اراکین کی رکنیت معطل ہوئیں جس میں قومی اسمبلی کی 8 اور اقلیتوں کے 4 اراکین کی نشستیں ختم ہوگئیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی سے خواتین اراکین میں جے یوآئی کی بلقیس، ستارہ آفرین،آمنہ جلیل جان، مدینہ گل آفریدی، رابعہ شاہین، نیلوفربیگم، ناہیدہ نور، عریفہ بی بی کی رکنیت ختم کردی گئی۔
مسلم لیگ ن سے آمنہ سردار، فائزہ ملک، افشاں حسین، شازیہ جدون، جمیلہ پراچہ کی رکنیت ختم ہوگئی جبکہ پیپلزپارٹی کی شازیہ تہماس خان،ساجدہ تبسم، مہرسلطانہ، اشبرجان جدون، فرزانہ شیری ، نادیہ شیر کی نشست بھی ختم کردی گئی۔
جے یوآئی کے گرپال سنگھ، عسکر پرویز، ن لیگ کے سریش کمار، پیپلزپارٹی کے بہاری لال کی رکنیت ختم ہوگئی۔
سندھ اسمبلی :
سندھ اسمبلی سے مخصوص نشستوں پر منتخب 3 ارکان کی نشستیں ختم ہوگئیں، سندھ اسمبلی سے مخصوص نشستوں پر منتخب 2 خواتین اور 1 اقلیتی رکن شامل ہیں جن میں پیپلزپارٹی کی سمیتا افضل سید اور متحدہ قومی موومنٹ کی مسرت جبیں کی رکنیت ختم ہوگئی۔
یادرہے کہ چند روز قبل فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کا اہل قرار دیاتھا۔
سپریم کورٹ کے 13 رکنی بینچ نے پشاور ہائی کورٹ کے سابقہ فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا۔ سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) نے مطالبہ کیا تھا کہ خواتین اور اقلیتوں کے لیے 77 نشستیں جو اصل میں وزیر اعظم شہباز شریف کے حکمراں اتحاد کو الاٹ کی گئی تھیں، پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ جماعت کو دوبارہ الاٹ کی جائیں۔
ایس آئی سی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کا نیا ٹھکانہ ہے۔
خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے لیے پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں پارٹی کے حمایت یافتہ امیدوار قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوں گے۔
حکمران اتحاد کے پاس قومی اسمبلی میں 224 نشستیں ہیں جو اسے 336 نشستوں پر مشتمل قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت دیتی ہے۔ سنی اتحاد کونسل کی 25 مخصوص نشستوں میں سے 21 نشستیں حکمراں اتحاد کو الاٹ کی گئی تھیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں میں سے 16 نشستیں حاصل کیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے ان میں سے 5 نشستیں حاصل کیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کو چار نشست دی گئیں۔
اگر ان نشستوں کو سنی اتحاد کونسل کو دوبارہ الاٹ کر دیا جاتا ہے تو حکمراں اتحاد کی تعداد کم ہو کر 203 رہ جائے گی جس سے وہ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے محروم ہو جائے گی۔
مارچ میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کردی تھی۔
الیکشن کمیشن نے 4-1 کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے 8 ججز کی حمایت سے فیصلہ سنایا۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی نشان واپس لینے سے کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ انتخابی نشان واپس لینے سے سیاسی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے سے نااہل نہیں کیا جا سکتا۔
جمعرات کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل تھے۔ خواتین اور غیر مسلموں کی مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے وکیل سکندر بشیر مہمند اور مخدوم علی خان، جنہوں نے مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے متاثرہ امیدواروں کی نمائندگی کی تھی، نے دلیل دی ہے کہ سنی اتحاد کونسل اب مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہے کیونکہ اس نے نہ تو عام انتخابات میں حصہ لیا ہے اور نہ ہی کوئی سیٹ جیتی ہے۔