جمعه,  05 جولائی 2024ء
کیاقصہ خوانی بازارمیں آج بھی قصہ گوئی کی روایت زندہ ہے؟دیکھیں تفصیلی رپورٹ

پشاور(روشن پاکستان نیوز)کسی بھی خطے،قوم یا ملک کی تہذیب و ثقافت اس کی تاریخی ترجمان ہوتی ہے۔پاکستان ایک ایسا خطہ سر زمین ہے جو کہ کئی تہذیبوں کا تمدن رہا ہے۔پاکستان کے تمام صوبے اپنی ثقافت روایات و رسوم کے حوالے سے منفرد و زرخیز ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا کا دارالحکومت پشاور تاریخ،تہذیب وتمدن،جغرافیہ اور ثقافت کے اعتبار سے خصوصی اہمیت کاحامل شہر تصور کیا جاتا ہے۔

یہ شہر درہ خیبر کی مشرقی حد کے نزدیک واقع ہے اور برصغیر میں داخل ہونے والوں کے لیے ایک قدرتی پڑائو کی حیثیت کا حامل رہا ہے۔

بادشاہ، فوجیں، حملہ آور اور تاجر سب پشاور ہی کے ذریعے برصغیر میں داخل ہوئے اور ان سب سے جڑا تاریخی قصہ خوانی بازار اپنی شناخت آپ ہے۔ قدیم و جدید روایات کا حسین امتزاج یہ بازار شہر کا ایک گنجان آباد اور بارونق علاقہ ہے۔

قصہ خوانی بازار تاریخی لحاظ سے ادبی اور سیاسی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بازار کا نام دراصل یہاں کے روایتی قہوہ خانوں، تکہ کباب،چپلی کباب اور خشک میوہ جات کی دکانوں کے ساتھ جڑی اس تجارت سے منسوب ہے جہاں پہلے پہل دور دراز سے آئے تاجر یہاں کے مہمان خانوں میں قیام کرتے اور اپنے اپنے ملکوں کے حالات قصہ کی شکل میں بیان کرتے۔

یہاں کے قصہ گو پورے علاقہ میں مشہور تھے۔ یہاں تاجروں کے علاوہ قافلوں کا بھی پڑائو ہوتا اور فوجی مہمات کا آغاز اور پھر اختتام جو تفصیلاََہر مہم کے احوال کے ساتھ یہیں ہوا کرتا تھا

۔یہاں کے پیشہ ور قصہ گو بہت مشہور تھے اور یہ تاجروں، مسافروں اور فوجیوں سے سنے قصوں کو نہایت خوبی سے بیان کیا کرتے تھے۔

ایک وقت میں اس بازار کو غیر تحریر شدہ تاریخ کا مرکز کہا جاتا تھا۔ خیبر پختونخوا کے گزئٹیر کے سیاح لوئل تھامس اور پشاور کے برطانوی کمشنر ہربرٹ ایڈورڈز نے اپنی تصانیف میں اس بازار کو وسط ایشیا کا پکاڈلی قرار دیا ہے۔

قصہ خوانی بازار کی منفرد حیثیت اور تاریخ اسے دیگر بازاروں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا بازار تھا جہاں پر وسطی ایشیا،افغانستان سمیت دنیا کے مختلف علاقوں سے تاجر اور سیاح آیا کرتے، یہاں موجود سرائے میں قیام کرتے ،قہوہ خانوں میں ایک دوسرے کو اپنے سفر اور اپنے علاقوں کے قصے، داستانیں سنایا کرتے تھے۔

جن مسافروں نے رات نہیں رکنا ہوتا وہ انہیں قہوہ خانوں میں سستاتے اور تھوڑا آرام کرنے کے بعد اپنے اپنے سفر پر نکل پڑتے۔ ماضی میں ان قہوہ خانوں میں پیتل کے بڑے بڑے حماموں میں پانی رکھا جاتا اور مٹی کے بنے مخصوص روایتی پیالوں میں گاہکوں کو قہوہ پیش کیا جاتا تھا۔

بازار کی مرکزی سڑک کے دونوں اطراف اب کتابوں،کپڑے،کریانہ کی دوکانیں، ڈاکٹروں کےکلینکس، ہوٹلز، چائے و قہوہ خانوں کے ساتھ ساتھ نوادرات، پشاوری چپلوں، خشک پھلوں سے لدی دوکانیں بازار کی رونقیں دوبالا کر رہی ہیں۔ فضا میں شوروغل کے باعث کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔

جبکہ جگہ جگہ کوئلوں پر گوشت بھوننے کے سبب پیدا ہونےوالا دھواں ماحول کوکثیف لیکن جابجا ترو تازہ پھلوں کے ڈھیروں اور تازہ پکتی روٹیوں کی بھینی بھینی خوشبو فضا کوکسی حد تک لطیف ضرور کر دیتی ہے۔

دکانوں کے اوپری منزل پر لوگوں کی رہائش اور ان کے عقب میں محلے آباد ہیں جہاں اونچے نیچے مکانات پرپیچ گلیوں کے ذریعے آپس میں منسلک ہیں۔ یہ گلیاں بعض مقامات پراس قدر تنگیء داماں کی شکایت کرتی ہیں کہ بیک وقت دو افراد کا گزر محال ہوجاتا ہے۔ بازار کی بوسیدہ مگر پرشکوہ سرائیں اورقدیم عمارات آج بھی عظمت رفتہ کی یاد دلاتی ہیں۔

قصہ خوانی بازار سے صرف پانچ منٹ سے بھی کم فاصلے پر واقع محلہ ڈوما گلی کے ایک مکان میں بھارت کے لیجنڈری اداکار یوسف خان المعروف دلیپ کمار نے جنم لیا۔یوسف خان یعنی دلیپ کمار دسمبر1922میں یہاں پیدا ہوئے ان کے والد جو 1930 کی دہائی کے اوائل میں ممبئی منتقل ہو گئے لیکن ہر دو تین سال بعد بچے چھٹیوں میں واپس یہیں آجاتے۔

یہ بچے یہاں کی لذید اور خوش ذائقہ مٹھائیوں سے بھی لطف اندوز ہوتے اور ان محلوں میں گھنٹوں کھیلتے رہتے۔ دلیپ کمار مختلف مواقع پر پاکستان کے دورے اور پشاور میں اپنے آبائی گھر سے وابستہ بچپن کی خوش گوار یادوں کا تذکرہ بہت جذباتی اور پر مسرت انداز سے کرتے رہےہیں

تاہم اب یہاں کے صدرجاوید اوردیگردکاندارموجودہ حالات سے نالاں نظرآتے ہیں اور اس کی تعمیر نو سے بھی خوش نہیں دیکھائی دیتے۔

ان کے مطابق حکومت تعیمر نو کر کے اس کی اصل حالت کو بگاڑ رہی ہے۔

 

مزید خبریں

FOLLOW US

Copyright © 2024 Roshan Pakistan News