منگل,  10 دسمبر 2024ء
صاف اور شفاف انتخابات

خلاصہ کلام
داؤد درانی


کیا آنے والے انتخابات شفاف،آذادانہ اور منصفانہ ہونگے یہ وہ سوال ہے کہ جس کو انگریزی میں ملین ڈالر سوال کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا جواب شاید کسی بھی پاکستانی کے پاس نہیں ہے۔

یہ سوال صرف 8فروری کو ہونے والے انتخابات کے بارے میں نہیں کیا جا رہا بلکہ پاکستان میں 1970کے انتخابات کے بعد ہونے والے ہر الیکشن پر یہی سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ منصفانہ اور شفاف تھے کہ نہیں۔

شاید 1970کا الیکشن پاکستان کی تاریخ کا واحد شفاف الیکشن تھا لیکن افسوس اس شفافیت کی وجہ سے ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور بجائے اسکے کہ اس الیکشن کے بعد پاکستان میں جمہوریت جڑ پکڑتی اور ملک ہر میدان میں ترقی کرتا پاکستان ہی ٹوٹ گیا۔

مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا نہ صرف یہ کہ ملک ٹوٹا بلکہ اسطرح بے عزتی سے ٹوٹا کہ آج بھی جب 16دسمبر کی تاریخ آتی ہے تو ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔

لیکن اس کے بعد ملک میں جتنے بھی انتخابات ہوئے کسی کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ شفاف اور منصفانہ تھے اور یہ بات ہم جیسے لوگ نہیں کرتے بلکہ خود سیاسی پارٹیوں کے لیڈران ہر الیکشن کے بعد اس کی شفافیت پر سوال اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔

آج تک کسی بھی سیاسی پارٹی نے اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا اور اپنی ہار کو دھاندلی قرار دیا یہی وجہ ہے کہ 1988سے لے کر جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء تک جتنے بھی انتخابات ہوئے اس میں ہارنے والوں نے انتخابات کے فوراً بعد جیتنے والے پر دھاندلی کا الزام لگا کر احتجاجی تحریک شروع کی۔

اس وقت دم لیا جب وقت سے پہلے حکومت کا خاتمہ نہیں ہوجاتا تھا عام طور پر تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کے مخصوص طریقے یہ ہیں کہ جعلی ووٹ ڈالے جائیں اور دھونس،دھاندلی کے زریعے پولنگ سٹشنز کے نتائج تبدیل کر دیے جائیں وغیرہ وغیرہ لیکن اب یہ باتیں پرانی ہوگئی ہیں اب پاکستان کی مضبوط اسٹبلشمنٹ اس قسم کے کام کرکے اپنے آپ کو بدنام نہیں کرتی بلکہ وہ کسی بھی الیکشن سے اپنی مرضی کے نتائج کے حصول کے لیے ایسے طریقے استعمال کرتی ہے کہ لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی اور سانپ بھی مر جاتا ہے۔

بقول کسی شاعر کہ دامن پہ کوئی چھینٹ نا خنجر پہ کوئی داغ،تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔

اب ہوتا یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ کا جب کوئی لاڈلا ہوتا ہے تو اسکی جیت کے لیے دھاندلی کے نئے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جس میں سب سے اہم اور بہترین طریقہ الیکٹبلز یعنی وہ امیدوار جن کی جیت یقینی ہو انہیں اپنی پسندیدہ پارٹی میں جمع کرنا۔

ان قابل جیت افرادکو جب اشارہ ملتا ہے وہ ملک و قوم کی ترقی کے لیے متعلقہ پارٹی میں دھوم دھام سے شامل ہوجاتے ہیں اور پھر جب کچھ عرصے کے بعد اسٹبلشمنٹ کا جی اس پارٹی سے بھر جاتا ہے تو ان قابل جیت افراد کو اشارہ ملتا ہے کہ اب حکومت کی کشتی ڈوبنے والی ہے لہٰذا وہ سب سے پہلے چھلانگیں لگا کر اس ڈوبتی کشتی سے اتر جاتے ہیں اور پھر اسٹبلشمنٹ کے اشارے کے منتظر ہوکر بیٹھ جاتے ہیں ۔

اسی طرح منظور نظر اور لاڈلے کے لیے ملک کا ہر ادارہ اسکا اپنا ادارہ بن جاتا ہے اور ہر فیصلہ اسی کے حق میں ہوتا ہے الیکشن سے قبل اسکے مخالفین پر مقدمے قائم کرکے انہیں باندھ دیا جاتا ہے تاکہ لاڈلے کو الیکشن میں جیت کے لیے کھلا میدان میسر ہو سکے۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کام پاکستان میں طویل عرصے سے جاری ہے۔

لیکن جو بھی سیاسی لیڈر اسٹبلشمنٹ کا لاڈلا یا پیارا بنتا ہے اسے یہ غلط فہمی لے ڈوبتی ہے کہ اب میں ہمیشہ لاڈلا رہوں گا اور کوئی بھی مجھے ہٹا نہیں سکتا اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ والے وقت سے پہلے اسے گردن سے پکڑ کر اقتدار کے ایوان سے باہر پھینک دیتے ہیں ۔

کسی دوسرے کو لاڈلا بنا لیتے ہیں ماضی بعید میں جانے کی ضرورت نہیں ہے تھوڑا سا پیچھے جائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ 2013میں جب اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کو گود لیا تو اس وقت کی بر سر اقتدار مسلم لیگ ن حکومت میں ہوتے ہوئے بھی بے بس نظر آئی اور پھر اپنے مخصوص حربے استعمال کرتے ہوئے عمران خان کو 2018کے انتخابات میں الیکٹبلز کے کاندھوں پر سوار کرکے اقتدار میں لایا گیا۔ جلد ہی اسٹبلشمنٹ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ ساڑھے

تین سال کے عرصے کے بعد انہوں نے عمران خان کے پیروں تلے اقتدار کا قالین کھینچ لیا۔

اب یہ بات واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے کہ اب کی بار پیارا راج دلارا کون ہے؟یہی وجہ ہے کہ پچھلے پانچ سال تک ایک دوسرے کی محبت میں غرق پارٹیاں بھی اس فکر میں ہیں کہ انہیں آنے والے الیکشن میں لیول پلینگ فیلڈ ملے گی کہ نہیں ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈران نے مسلم لیگ ن کو لگاتار اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے اور وہ ہر جگہ اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ شاید اوپر ایوانوں میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ 8فروری 2024کو کس کے سر پر ہما بیٹھے گا اس لیے وہ یہ واویلا کر رہے ہیں کہ انہیں لیول پلینگ فیلڈ ملتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔

یعنی اب ہوگا یہ کہ آنے والے عام انتخابات کے بعد جو بھی سیاسی پارٹی ہارے گی اسکا سب سے پہلا نعرہ یہ ہوگا کہ انتخابات شفاف اور منصفانہ نہیں تھے ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔

چوہے بلی کا یہ کھیل ہم پاکستان میں طویل عرصے سے دیکھتے آرہے ہیں اور آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ صاف اور شفاف انتخابات کیسے ہوتے ہیں اور اگر ہوتے بھی ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں ہوتے؟

ہماری شاید ساری عمر انہی نعروں کو سننے میں گزر جائے گی کہ پاکستان میں شفاف انتخابات نہیں ہوتے یہ الگ بات ہے کہ جیتنے والے کی نظر میں ہر وہ الیکشن مکمل شفاف اور منصفانہ ہوتا ہے جس میں اس کی جیت ہوتی ہے چاہیے کسی کے کندھے پر چڑھ کہ ہی کیوں نا ہوئی ہو۔

مزید خبریں