اسلام آباد (محمد زاہد خان) سیلابی صورتحال سے نمٹنے کےلئے قلیل ، درمیانی اور طویل المدتی پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی، پیشگی اطلاعات کے نظام کی وجہ سے نقصان کم سے کم ہوا ہے تفصیلات کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پانی کے نئے ذخائرکی تعمیرکو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں سیلابی صورتحال سے نمٹنے کےلئے قلیل ، درمیانی اور طویل المدتی پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی، ٹیم ورک کے ذریعے سیلاب جیسی قدرتی آفت سے نمٹنا جاسکتا ہے، پیشگی اطلاعات کے نظام کی وجہ سے نقصان کم سے کم ہوا ہے،پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ 10ممالک میں شامل ہے، ریسکیو اور قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے والے اداروں کو مزید متحرک کرنا ہوگا ۔ ان خیالات اظہار انہوں نے نارووال میں سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے موقع پر بریفنگ کے دوران گفتگوکرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف،وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی پروفیسر احسن اقبال ، وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات عطاء اللہ تارڑ ، چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدرملک اور دیگراعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ چیئرمین این ڈی ایم اے نے وزیراعظم کوپنجاب کے دریائوں میں طغیانی اورزیر آب علاقوں میں ریسکیو و ریلیف آپریشن سے متعلق بریفنگ دی۔وزیراعظم نے کہا کہ گلگت بلتستان خیبر پختونخوا کے بعد اب پنجاب کو بارشوں اور سیلاب کی صورتحال کا سامنا ہے، سیلاب سے ہونے والے جانی نقصان پر افسوس ہے، وفاقی وزرا،افواج پاکستان،سول انتظامیہ ، این ڈی ایم اے ، ریسکیو1122 ، نارووال کی سیاسی قیادت اوردیگر اداروں کا کردار قابل تحسین ہے،ہیلی کاپٹرز اور کشتیوں کا بھی انتظام کیا گیا ہے ، پیشگی اطلاعات کے نظام کی وجہ سے نقصان کم سے کم ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2022میں صوبہ سندھ ، بلوچستان ، خیبرپختونخوا اور پنجاب کے جنوبی اضلاع میں بہت نقصان ہوا تھا، لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی تھیں اور پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان بدقسمتی سے ان ممالک میں شامل ہے جو قدرتی آفات کا نشانہ بن رہے ہیں اور ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے متاثرہ 10ممالک میں پاکستان کا نام شامل ہے،ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ آئندہ آنے والے سالوں میں یہ سلسلہ چلتا رہے گا، اب یہ ہم پرمنحصرہے کہ ہم کس طرح اس چیلنج سے نمٹتے ہیں ، وفاق ، چاروں اکائیاں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان مل کر اس کا مقابلہ کریں گے تو آنے والی صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس مقصد کےلئے صوبوں نے اپنی سطح پر تیاریاں کرنی ہیں ، وفاق کی سطح کی این ڈی ایم اے اور دیگرمتعلقہ اداروں کو مکمل طورپر تیاریاں کرنا ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہوگا اور اس کےلئے اپنے وسائل کو بروئے کار لانا ہوگا، اس سے سیلاب کی صورتحال پر قابو پایا جاسکے گا اگرپانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہمارے پاس نہیں ہوگی توہم جتنی بھی کوششیں کرلیں یہ نامکمل ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں وسائل خود جمع کرنے ہوں گے،ملک میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مل کر یہ سکت موجودہے اگر سرجوڑ کے بیٹھیں گے تو اس کا حل ڈھونڈ لیا جائے گا، آنے والے سالوں میں ماحولیاتی چیلنج سے ہمیں نمٹنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایپکس کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں میں نے یہ معاملہ اٹھایا تھا کہ پانی ذخیرہ کرنے کی استعدادوقت کی ضرورت ہے اور بغیروقت ضائع کئے اس کی تیاری کرنا چاہئے،بھاشا ڈیم اورمہمند ڈیم کی تعمیر بہت اہم ہے ،اسی طرح پنجاب میں چنیوٹ اور کئی دیگرمقامات پر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاسکتی ہے،شمالی علاقوں میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں ،ریسکیو اور قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے والے اداروں کو مزید متحرک کرنا ہوگا اگرہم آج سے آغاز کریں گے توپانی ذخیرہ کرنے کے عظیم منصوبوں کو پورا کرنے میں کئی سال درکار ہوں گے،پنجاب کے بعد سیلابی ریلا سندھ کا رخ کرے گا، ہماری دعا ہے کہ اس کی طغیانی میں کمی آئے ، یہ ایک چیلنج ہے، اس چیلنج سے ہمیں مل کر نمٹنا ہوگا، تباہ ہونے والی فصلوں کے مالکان کو نقصانات کا معاوضہ فوری ادا کرنے کا وزیر اعلیٰ پنجاب کا اعلان خوش آئند ہے، اسی طرح جو جانی نقصان ہوا ہے، گھر تباہ ہوئے ہیں ان کے نقصان کا بھی ازالہ کیا جائے گا۔وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کی پوری ٹیم اور این ڈی ایم اے کو شاباش دیتا ہوں اور افواج پاکستان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ سب مل کر جانفشانی کے ساتھ کام کررہے ہیں ، گوردوارہ کرتارپور سے یاتریوں کے انخلاکےلئے وزیراعلیٰ پنجاب نے ہیلی کاپٹر بھجوانے کا حکم دیا تھا لیکن موسم کی خرابی کے باعث پھرکشتیوں کے ذریعے ان کے انخلا کو یقینی بنایا گیا۔گوردوارہ کرتار پور سکھ برادری کا مقدس مقام ہے، پانی کی فوری نکاسی کرنا ہوگی۔اس موقع پروزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے پر وزیراعظم کی شکر گزار ہوں، نارووال سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں شامل ہوتا ہے، پنجاب انتظامیہ اور ریسکیو کا کردار لائق تحسین ہے، تمام متعلقہ اداروں نے متاثرین کی مدد کےلئے فوری اقدامات اٹھائے، گزشتہ 40 سالوں میں مون سون کا ایسا طویل سلسلہ کبھی نہیں آیا،متواتر بارشوں اور بھارت کی طرف سے پانی چھوڑنے سے غیرمعمولی صورتحال پیدا ہوئی، یہ امر باعث اطمینان ہے یہ تمام اداروں نے مل کر بھرپور کام کیا ہے، ایک ہزار فیلڈ کلینک کام کررہے ہیں ، مویشیوں کےلئے پانی اورچارے کا انتظام بھی کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیشگی اطلاعا ت کے موثر نظام کی وجہ سے لوگوں کا محفو ظ انخلا ممکن ہوا ہے، پاک فوج کے جوان پنجاب کے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، ہمیں ایسا بنیادی ڈھانچہ تعمیرکرنا ہے جس سے پانی کو روکا اور محفوظ بنایا جاسکے۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی ، ترقی و خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے کہا کہ ریسکیو اور ریلیف کی کوششوں کو مربوط اور تیز کرنے کی ضرورت ہے، نارووال دریائی طغیانی سے سب سےزیادہ متاثر ہوتا ہے، شاہراہوں کی بحالی کا کام فوری شروع کرنا ہوگا، نارووال کو آفت زدہ قرار دیا جائے،ہمیں اپنا بنیادی ڈھانچہ مضبوط کرکے سیلاب سے بچائو کے اقدامات کرنا ہوں گے،سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے پر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کا شکر گزارہوں۔چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹننٹ جنرل انعام حیدرملک نے بتایا کہ مغربی مون سون کا یہ سلسلہ میدانی علاقوں میں جاری ہے، بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں وکشمیر اور سیالکوٹ ریجن میں غیرمعمولی بارشوں سے دریائوں میں طغیانی آئی ہے، مغربی دریا معمول کے بہائو پر ہیں ، مشرقی دریائوں میں سیلابی صورتحا ہے، خانکی اور قادرآباد میں پانی کا 10 لاکھ کیوسک کا ریلہ ہے، ہیڈ گنڈا سنگھ والا پر پانی کا بہائو زیادہ ہے۔
مزید پڑھیں: سیلاب متاثرین کو فصلوں ، باغات ، مال مویشیوں کے نقصان کا بھی معاوضہ دیا جائیگا ، علی امین گنڈاپور