جمعرات,  13 فروری 2025ء
فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کیس، کیا فوج میں اب جوڈیشل کور بھی بنا دی جائے، جسٹس حسن اظہر رضوی

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز)  سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیس میں جسٹس امین الدین نے کہا کہ ہم نے اپنا قانون دیکھنا ہے برطانیہ کا نہیں۔

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بینچ کی جانب سے بھارت میں کورٹ مارشل کے خلاف اپیل کا حق دینے کا سوال ہوا تھا۔ تو برطانیہ میں کورٹ مارشل فوجی افسر نہیں ہائی کورٹ طرز پر تعینات ججز کرتے ہیں۔ اور کمانڈنگ افسر صرف سنجیدہ نوعیت کا کیس ہونے پر مقدمہ آزاد فورم کو ریفر کر سکتا ہے۔

جسٹس امین الدین نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنا قانون دیکھنا ہے برطانیہ کا نہیں۔

جسٹس مسرت ہلال نے ریمارکس دیئے کہ زیر سماعت اپیلوں میں کالعدم دفعات بحالی کی استدعا کی گئی۔ اور قانون کی شقوں کا جائزہ لینا ہے تو عالمی قوانین کو بھی دیکھنا ہو گا۔ دفعات کالعدم نہ ہوتیں تب دلائل غیرمتعلقہ ہوسکتے تھے لیکن اب نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا نظام کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل ہوسکتا یا نہیں؟

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سویلینز کا کورٹ مارشل کسی صورت میں بھی ممکن نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ برطانوی قانون تو وہاں کی فوج کے ڈسپلن سے متعلق ہے۔ اور کیس میں تو جرم عام شہریوں نے کیا، اس پر کیسے اپلائی ہو سکتا ہے؟

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ برطانوی قانون کی مثال ٹرائل کے آزاد اور شفاف ہونے کے تناظر میں دی تھی۔ ایف بی علی کیس میں آرٹیکل 175 کی شق 3 ہوتا تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہ جاتا۔

یہ بھی پڑھیں: سویلنز کا ملٹری ٹرائل، آج کل جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کرنا فیشن بن چکا ہے، سپریم کورٹ

عدالت نے کہا کہ مرکزی فیصلے میں آرٹیکل 175 کی شق تین کے تحت کیس کو کالعدم ہی نہیں قرار دیا گیا۔ آج تک کسی عدالتی فیصلے میں ایف بی علی کیس کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا۔ اور 26ویں آئینی ترمیم میں کہا گیا کہ کیسز آئینی بینچ میں جائیں گے۔ ترمیم میں کہا گیا آئینی و قانونی تشریح والے زیر التوا کیسز آئینی بینچ میں جائیں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ایک بینچ نے فیصلہ کیا کیسز خودکار طور پر نہیں جاسکتے۔ اور ہم نے کہا نہیں 26ویں ترمیم کے بعد کیسز خود آئینی بینچ میں جائیں گے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 175 کی شق تین کے تحت ایف بی علی کیس کو ختم کیوں نہیں کیا گیا؟ مرکزی کیس میں فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا ہی نہیں تو ہم اپیل میں ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟

جسٹس امین الدین نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ ایف بی علی فیصلے کو کیوں چیلنج نہیں کیا گیا؟ ہم اپیل میں اختیار سماعت کو کس حد تک بڑھا سکتے ہیں؟ اور ہم وجوہات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے الگ سے وجوہات بھی دے سکتے ہیں۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ فیئر ٹرائل کے لیے آپ کو آرٹیکل آٹھ تین سے نکلنا ہو گا۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرمی سے متعلق قانون سازی 2015 اور پھر 2017 میں ہوئی تھی۔ اور اے پی ایس والے آج بھی انصاف کے لیے دربدر بھٹک رہے ہیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ میرا اشارہ آرمی چیف کی توسیع کی قانون کی طرف تھا۔ آرمی پبلک اسکول کے کچھ مجرمان کو پھانسی ہو گئی تھی۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ فوج میں ایک انجینئرنگ کور ہوتی ہے۔ اور فوج میں میڈیکل کور بھی ہوتی ہے۔ دونوں کور میں ماہر انجینئر اور ڈاکٹرز ہوتے ہیں۔ لیکن کیا فوج میں اب جوڈیشل کور بھی بنا دی جائے؟

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو قانون سازوں کا کام ہے اور ایک جرم سرزد ہوا تو سزا ایک ہو گی۔

وکیل سلمان اکرم راجہ سپریم کورٹ میں منگل کو بھی دلائل جاری رکھیں گے۔ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت 18 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔

مزید خبریں