اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) – پاکستان بھر میں صحافی برادری نے متنازع پیکا (پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس بل کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔
لاہور میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے تحت صحافیوں نے سیاہ پٹیاں باندھ کر پیکا قانون کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے اعلان کیا کہ صحافیوں کی برادری اس کالے قانون کے خلاف مارچ کرے گی اور سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے پیکا قانون کی منظوری صحافت کی آزادی پر حملہ ہے۔
اسلام آباد میں پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں نے ہمیشہ آزادی صحافت کے دفاع میں کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیکا قانون ایک جابرانہ اقدام ہے جو آزادی اظہار رائے کو محدود کرتا ہے اور صحافیوں کے لیے خطرات پیدا کرتا ہے۔
کراچی پریس کلب کے باہر بھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جہاں صحافیوں نے قومی اسمبلی کے سامنے دھرنے کا اعلان کیا۔ چاروں صوبوں کے مختلف شہروں میں صحافیوں نے اس قانون کے خلاف آواز اٹھائی، اور بل واپس لیے جانے تک احتجاج جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔
سندھ کے مختلف شہروں میں جیسے حیدر آباد، سکھر، شکارپور، ٹھٹہ، لاڑکانہ، سجاول، خیرپور، نواب شاہ، گھوٹکی، ٹنڈو محمد خان، میرپورخاص میں بھی صحافیوں نے احتجاج کیا۔ پنجاب کے شہروں جیسے بہاولپور، رحیم یار خان، خانیوال اور دیگر مقامات پر بھی مظاہرے ہوئے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھی صحافیوں نے اس قانون کے خلاف احتجاج کیا۔
مزید پڑھیں: پی ایف یو جے کا کل متنازعہ پیکا ایکٹ کیخلاف یوم سیاہ منانے کا اعلان
سول سوسائٹی، مزدور تنظیموں، وکلا اور اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس احتجاج میں بھرپور شرکت کی۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی یوم سیاہ منایا گیا اور صحافیوں نے پیکا قانون کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔
صحافی برادری کا کہنا ہے کہ اس قانون کے ذریعے میڈیا کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اور حکومت کو اس بل کو فوری طور پر واپس لینا چاہیے تاکہ صحافت کی آزادی کو یقینی بنایا جا سکے۔