بدھ,  08 جنوری 2025ء
آئین واضح ہے کہ ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں سویلینز ٹرائل سے متعلق کیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے آئین واضح ہے کہ ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی،سماعت کے آغاز پر سپریم کورٹ نے انتخابات میں دھاندلی سمیت آئینی بنچ کے دیگر مقدمات کی سماعت بغیر کارروئی ملتوی کر دی، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آئینی بینچ آج صرف فوجی عدالتوں کا کیس سنے گا۔

فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کیا، وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قرار دیا کہ فوج کے ماتحت سویلنز کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔

اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ موجودہ کیس میں متاثرہ فریق اور اپیل دائر کرنے والا کون ہے؟ جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ اپیل وزارت دفاع کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ وزارت دفاع ایگزیکٹو کا ادارہ ہے، ایگزیکٹو کے خلاف اگر کوئی جرم ہو تو کیا وہ خود جج بن کر فیصلہ کرسکتا ہے؟

آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے، آئین واضح ہے کہ ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا، خصوصی عدالتوں کے کیس میں یہ بنیادی آئینی سوال ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی اور فورم دستیاب نہ ہو تو ایگزیکٹو فیصلہ کر سکتا ہے، جس پر جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ قانون میں انسداد دہشتگردی عدالتوں کا فورم موجود ہے، قانونی فورم کے ہوتے ہوئے ایگزیکٹو خود کیسے جج بن سکتا ہے؟ وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ آپ کی بات درست ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کو صرف مسلح افواج کے ممبران تک محدود کیا گیا ہے، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، آرمی ایکٹ صرف آرمڈ فورسز تک محدود نہیں ہے، بنیادی آئینی حقوق کی بنیاد پر آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کوئی شہری فوج کا حصہ بن جائے تو کیا بنیادی حقوق سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے؟ ملٹری کورٹس کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 175 سے الگ ہے، کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا؟ کیا کام سے روکنے کے الزام پر اس کو ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے گا؟

مزید پڑھیں: بشریٰ بی بی کی پی ٹی آئی کے قانونی معاملات میں مداخلت، وکلا ٹیمیں تبدیل

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ تو آپ نے ایک صورتحال بتائی اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا، اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر شہری آرمی ایکٹ میں درج جرم کا مرتکب ہوا تو ٹرائل چلے گا،صرف چوکی کے باہر کھڑے ہونے پر تو کچھ نہیں ہو گا۔

بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

مزید خبریں