راولپنڈی(روشن پاکستان نیوز) ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا ہے کہ کسی سیاسی لیڈر کی اقتدار کی خواہش پاکستان سے بڑھ کر نہیں، 9 مئی کے اصل کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے تک انصاف کا سلسلہ جاری رہے گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا 5 سال کے مقابلے میں اس سال سب سے زیادہ دہشتگرد مارے گئے، افواج پاکستان نے دہشتگردی کے کئی منصوبوں کو کامیابی سے ناکام بنایا، افواج پاکستان نے آپریشنز میں دہشتگردوں سے بھاری تعداد میں اسلحہ بھی برآمد کیا۔
انہوں نے بتایا کہ سال 2024 میں دہشتگردوں کے کئی بڑے ناموں سمیت 925 دہشتگردوں کو واصل جہنم کیا گیا اور آپریشنز میں 73 انتہائی مطلوب دہشتگردوں کو مارا گیا۔
ان کا کہنا تھا 2 خود کش بمباروں کو حراست میں لیا گیا جبکہ 14 مطلوب دہشتگردوں نے ہتھیار ڈالے، 383 افسران اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں کیں، پاکستان کی تمام تر کوشش کے باوجود افغان سرزمین سے دہشتگرد پاکستان میں دہشتگردی کر رہے ہیں، دہشتگردی کے تانے بانے افغانستان تک جاتے ہیں، دہشتگردروں کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا پاک فوج بھارت کے کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کا بازار گرم رکھا، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا ظلم و ستم دنیا کے سامنے ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے، ہم مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بھارت دیگر ممالک میں سکھوں کے قتل میں بھی ملوث ہے، بھارت میں سازش کے تحت اقلیتوں کی نسل کشی کی جارہی ہے، ہمارا اصولی مؤقف ہے کہ مقبوضہ کشمیرکے مظلوم عوام کی قانونی، سفارتی، اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا دہشتگردی کے ناسور کے خلاف پوری قوم نے اداروں کے ساتھ ملکر لڑنا ہے کیونکہ محفوظ پاکستان ہی مضبوط پاکستان ہے، پاکستان میں دہشتگردی، بھتہ خوری اور اسمگلنگ کا اربوں روپے کا اسپیکٹرم موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی اس وقت ختم ہو گی جب انصاف، تعلیم، صحت اور گڈ گورننس ہو گی، دہشتگردی اس وقت ختم ہو گی جب دہشتگردی اور جرائم کا گٹھ جوڑ ختم ہوگا، پاکستان میں اربوں روپے کا غیر قانونی اسپیکٹرم ہے جس کا فیک نیوز بھی حصہ ہے، یہ فیک نیوز اسپیکٹرم کو توڑنے کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہے، اشرافیہ بھی غیر قانونی اسپیکٹرم کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ سکیورٹی ادارے اس غیر قانونی اسپیکٹرم کے خلاف کھڑے ہیں۔
مزید پڑھیں: سول نافرمانی 9 مئی سے بڑا جرم ہے، دباؤ میں عمران کو چھوڑا گیا تو قوم کھڑی ہوگی: جاوید لطیف
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا 8 لاکھ سے زائد غیرقانونی مقیم افغانوں کو واپس بھجوایا جا چکا ہے، ملک کے ڈیجیٹل سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں، احساس محرومی کا جھوٹا، مصنوعی بیانیہ بنایاجاتا ہے، بلوچستان میں احساس محرومی کے جھوٹے بیانیے کا پردہ چاک ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا دو سال سے افغان عبوری حکومت کے ساتھ بات چیت اور رابطہ جاری ہے ، ہم ان سے ایک ہی بات کر رہے ہیں کہ دونوں ممالک برادر ملک ہیں، افغان حکومت کو باور کرایا جاتا ہے کہ فتنہ الخوارج اور سہولت کاری کو روکیں، واضح پالیسی عمل میں ہے، افغانستان کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں، ڈیجیٹل سرحد کو محفوظ بنانے کیلئے لیگل اور ٹیکنیکل ایکشن لیے جا رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے مذاکرات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا پاک فوج کا ہر حکومت کے ساتھ سرکاری اور پیشہ وارانہ تعلق ہوتا ہے، اس تعلق کو سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں، تمام سیاسی جماعتیں اور لیڈرز قابل احترام ہیں، خوش آئند ہےکہ سیاستدان مل بیٹھ کر اپنے معاملات حل کریں نہ کہ انتشاری انداز اپنایا جائے۔
ان کا کہنا تھا ہمارے لیے تمام سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت قابل احترام ہیں، کسی سیاسی لیڈر کی اقتدار کی خواہش پاکستان سے بڑھ کر نہیں۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا 9 مئی کے پیچھے مربوط سازش اور منصوبہ بندی تھی، اس منصوبہ بندی اور سازش میں ملوث عناصر کو کیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے، ملٹری ٹرائل میں ملزم کو قانونی حقوق حاصل ہوتے ہیں، فیض حمید کو حاصل بھی ہے، کوئی بھی افسر سیاست کو ریاست پر مقدم رکھے گا تو جواب دینا پڑے گا، نومبر 2024 میں بھی 9 مئی 2025 کا تسلسل دیکھا۔
ایک اور سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا 9 مئی افواج پاکستان کا نہیں عوام پاکستان کا مقدمہ ہے، دہشتگردی کے مسئلے پر مزید کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
نومبر میں ہونے والے دھرنے میں فوج کے کردار اور ہونے والی اموات سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا یکم دسمبر کو وزارت داخلہ نے اس حوالے سے مفصل اعلامیہ جاری کیا تھا، اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ فوج کو پرتشدد ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے تعینات نہیں کیا گیا تھا، فوج کی تعیناتی صرف ریڈ زون تک محدود تھی جبکہ سیاسی قیادت کے مسلح گارڈ اور ہجوم میں شامل لوگوں کے پاس آتشی اسلحہ تھا، مظاہرین کے پاس اسلحہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر دیکھا بھی، بے معنی ہنگامہ آرائی سے توجہ ہٹانے کے لیے فیک نیوز کا سہارا لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ فوج کسی خاص سیاسی جماعت یا نظریہ کی نہ مخالف ہے نا حمایتی، 26 نومبر کی سازش کے پیجھے سوچ سیاسی دہشتگردی کی ہے، 26 نومبر کو ہزاروں کارکنوں کی شہادت کا جھوٹ پھیلایا گیا، ان کو اعتماد ہے کہ یہ کوئی بھی جھوٹ بیچ سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں سکیورٹی پر مامور اہلکار کو آتشی اسلحہ نہیں دیا گیا، جب سیاسی قیادت وہاں سے بھاگی تو سوشل میڈیا پر جھوٹا پروپیگنڈا دیا گیا، قانون اجازت دیتا ہے کہ اپ پرامن احتجاج کریں لیکن آپ پولیس رینجرز پر حملے کرتے ہیں تو یہ سیاسی دہشت گردی ہے، آپ مسلح جتھے کو لیکر وفاق پر حملہ آور ہو جائیں، فیک نیوز اور جھوٹے پروپیگنڈا کے باعث یہ ہوتا ہے، انھوں نے 26 نومبر کو بیانیہ دیا کہ ہزاروں افراد مارے گئے۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا انتشاری سیاست کا کنٹرول اندرون ملک سیاسی لیڈرز کے پاس نہیں، ملک سے باہر افراد کے پاس اس انتشاری سیاست کا کنٹرول ہے، کیسے انسانی حقوق کی تنطیمیں دنیا سے سامنے آتی ہیں، ان تنظیموں کو غزہ فلسطین نظر نہیں آئیں گے، انسانی حقوق پر جو تنظمیں واویلا مچا رہی ہیں، وہ ایسی مہم غزہ اور کشمیر پر چلائیں۔
افغانستان کے ساتھ تعلقات پالیسی سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا چاہتے ہیں افغانستان خوارجیوں کو پاکستان پر فوقیت نہ دے، دوست ممالک کے ذریعے بھی افغانستان سے بات چیت ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا چند دن قبل 16 ایف سی جوان شہید ہوئے کیا ان کے خون کی کوئی قیمت نہیں، فتنہ خوارج کی کمر ٹوٹ گئی تھی تو کس کے فیصلے پر بات جیت کرکے انھیں سیٹل کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ 2021 میں کس کی ضد تھی کہ بات چیت کرکے ان کو سیٹیل کیا جائے، بات چیت کی اس ضد کی قیمت خیبرپختونخوا ادا کر رہا ہے، بجائے اس پر بیانیہ بنانے کے خیبرپختونخوا میں گڈ گورننس پر توجہ دیں، ایسے ہر مسئلہ کا حل بات چیت سے ہوتا تو دنیا میں جنگ اور غزاوت نہ ہوتے، ایسے رویے کی قیمت پوری قوم دیتی ہے، بجائے اس پر بیانہ بنائیں، سیاسیت کریں، گڈ گورننس کیوں نہ کریں، انہوں نے کیونکہ گڈ گورننس پر توجہ نہیں دینی اس لیے اس پر سیاسیت کرنی ہے۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سے متعلق سوال پر ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا پاک فوج کا خود احتسابی کا عمل بہت شفاف اور جامع ہوتا ہے، پاک فوج میں کوئی بھی افسر اور جوان قانون سے بالاتر نہیں ہوتا، کوئی بھی افسر سیاست کو ریاست پر مقدم رکھے گا تو اسے جواب دینا پڑے گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا فیض حمید کا معاملہ بہت حساس ہے اور یہ معاملہ ابھی عدالت میں زیر سماعت ہے، اس پر جو بھی تفصیلات ہوں گی وہ شیئر کر دی جائیں گی لہذا اس معاملے پر زیادہ تبصروں سے گریز کیا جائے۔