پنجاب کے شہر سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں سفاک ساس اور نندوں کے ہاتھوں حاملہ بہو کے قتل کی اصل وجہ سامنے آگئی۔
حاملہ خاتون کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزمان نے پولیس کو بتایا تھا کہ قتل جادو ٹونے کی وجہ سے کیا ہے۔
پولیس کی زیرحراست ساس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ‘ہمارے خاندان میں جتنی اموات ہوئیں ہیں سب بہوکے جادو ٹونے کہ وجہ سے ہوئیں، ہمارے گھر کی اشیاء اکثر ٹوٹ جاتی تھیں۔
تاہم تفتیش کے دوران اِس انسانیت سوز قتل کے اصل محرکات سے جڑے ہولناک انکشافات سامنے آئے ہیں۔
پولیس کے مطابق زارا کے شوہر قدیر گذشتہ کئی سالوں سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ زارا بھی شادی کے بعد سعودیہ شفٹ ہوئیں۔ ان کا ایک بیٹا پہلے بھی ہے اور اب وہ پھر امید سے تھیں۔ انہیں پاکستان واپس آئے ہوئے ایک مہینے کا عرصہ ہی ہوا تھا۔ ان کے والد شبیر احمد خود بھی ایک ریٹائرڈ پولیس افسر ہیں۔
مقتولہ کے والد ریٹائرڈ اے ایس آئی شبیر احمد نے بتایا کہ ‘ہم تو ابھی اس بات کو ہضم کرنے کے قابل نہیں ہو پائے۔ یہ سگی خالہ تھی میری بیٹی کی۔ اور بڑے مان سے رشتہ لے کر گئی تھی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘تھوڑی بہت نوک جھونک کا ہمیں بھی علم تھا اور اتنی ہر گھر میں ہوتی ہے اور اس پر ہم اپنی بیٹی کو پھر بھی سمجھاتے تھے کہ خالہ سے اونچی آواز میں بات نہیں کرنی، لیکن خالہ اس حد تک چلی جائے گی اس کا تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے’۔
مقتولہ کے والد شبیر احمد بتایا کہ میں زہرہ کو کال کرتا رہا مگر جواب نہیں مل رہا تھا۔ جس کے بعد میں خود ڈسکہ چلا گیا، جب میں زہرہ کے سسرالی گھر میں داخل ہوا تو وہاں پر ان کی سالی یعنی زہرہ کی ساس، اور زہرہ کی نند موجود تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے گھر کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی نے زہرہ، زہرہ کی آوازیں لگانی شروع کر دی، جس پر زہرہ کی نند نے مجھے کہا کہ زہرہ نہیں ہے۔ جب میں نے پوچھا کدھر گئی ہے تو اس نے کہا کہ ہمیں کیا پتا زیور، پیسے وغیرہ لے کر بھاگ گئی ہو گی‘۔
شبیر احمد کے مطابق جب زہرہ کی نند نے ان کی بیٹی پر الزام عائد کیا کہ وہ گھر سے بھاگ گئی ہے تو میں نے ان سے پوچھا کہ ’سچ بتاؤ زہرہ کہاں ہے، کیسے اور کیوں بھاگ گئی؟‘
انہوں نے کہا کہ ’وہیں مجھے میری چھٹی حس نے کہا کہ کچھ بہت برا ہو چکا ہے، میں نہ صرف زہرہ کے کمرے میں گیا بلکہ گھر کے دیگر کمروں میں بھی اسے تلاش کیا۔ وہاں مجھے ایک غیر معمولی بات محسوس ہوئی اور وہ یہ تھی کہ زہرہ کا اڑھائی سالہ بیٹا بھی گھر پر تھا اور گھر کو بہت زیادہ صاف کیا گیا تھا، فرش دھویا گیا تھا۔ بس یہ دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا اور میں نے فوراً اپنے بڑے بھائی کو فون کیا اور ساتھ میں مقامی تھانے کے علاوہ 15 پر کال کر دی۔
شبیر احمد کا دعویٰ ہے کہ ‘پولیس کو اطلاع دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میری بیٹی کو ماضی میں بھی سسرال میں ایک بار مارنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جب مجھے اپنی بیٹی سسرال میں نہ ملی تو میں نے ڈسکہ کے مقامی تھانے میں زہرہ کے سسرال والوں کے خلاف اس کے ’اغوا‘ کا پرچہ درج کروایا دیا۔
‘حسد کی آگ نے اِس گھر کو بھسم کر دیا’
مقدمے کے تفتیشی افسر محمد ارشد نے بتایا کہ ‘جو بیان ملزمان نے دیا ہے جس میں جادو ٹونے کی بات کی گئی ہے اس میں بظاہر کوئی صداقت نہیں لگ رہی۔ اصل بات ہے کہ اس ملزمہ خاتون کی چھ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹا اپنی بیوی سے پیار کرتا ہے اور اسے اپنے ساتھ لے گیا۔ جس پر ملزمہ کو لگا کہ اس سے اس کا بیٹا چھین لیا گیا ہے’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘مقتولہ اس خاندان میں سب سے خوبصورت خاتون بھی تھی اور ایک طرح سے پورے خاندان کی توجہ اسی پر ہوتی تھی تو 6 کی 6 نندوں کو اس بات کا الگ سے حسد تھا۔ میرے تجربے کے مطابق صرف حسد کی آگ نے اس گھر کو بھسم کر دیا ہے’۔
پولیس کا کہنا ہے کہ دورانِ تفتیش ملزمہ نے بتایا کہ ’ان کا بیٹا اپنی بیوی کا بہت خیال رکھتا تھا، اس کو پیسے وغیرہ بھی دیتا تھا جو کہ ان سے برداشت نہیں ہوتا تھا’۔
پولیس کے مطابق ‘اب جب مقتولہ دوبارہ حاملہ تھی تو ملزمہ خاتون کا خیال تھا کہ اب ان کا بیٹا مکمل طور پر بہو کی گرفت میں آ جائے گا’۔
ایس ایچ او ملک توقیر کے مطابق ‘ساس بہو کے درمیان جھگڑے بہت عرصہ پہلے شروع ہو گئے تھے اور ایک طرح سے دونوں کے درمیان ایک سرد جنگ چل رہی تھی۔ ابھی تک کی تفتیش میں جو باتیں سامنے آئی ہیں ان میں سوائے روایتی ساس بہو کے جھگڑوں اور حسد کے کوئی بڑی بات نہیں ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘زیادہ مسئلہ اُس وقت شروع ہوا جب مقتولہ بیرون ملک اپنے شوہر کے پاس چلی گئی۔ اس کے بعد بات اب قتل پر ختم ہوئی ہے’۔