اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز) پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن جو کہ کبھی ہمارا فخر ہوتا تھا اب درد سر بن کر رہ گیا ہے، کیونکہ اس کی نجکاری کے حوالے سے سیکرٹری نجکاری ڈویژن نے نئی تاریخ کا اعلان کیا ہے، اب پی آئی اے کی نجکاری یکم اکتوبر کو ہوگی، لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا کی کوئی بھی ایسی کمپنی پی آئی اے کو خریدنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں،کیونکہ سب کا یہی خدشہ ہے کہ سالانہ اربوں روپے کا نقصان دینے والی اس ایئر لائن کو خریدنا سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔
سینٹر سحر کامران نے ایک نجی ٹی وی چینل میں گفتگو کے دوران کہا کہ اس حوالے سے سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ ایئر لائن جس نے دنیا کی دوسری بہترین ایئر لائنز کو بنایا ،وہ ایئر لائن جو کہ 2011 اور 2012 تک پراپر پرافٹ دے رہی تھی ،آخر ایسا کیا ہوا کہ اس پی آئی اے کے ایسے حالات ہو گئے؟
انہوں نے کہا کہ مجھے تو لگتا ہے کہ حکومت سے نظام حکومت نہیں چل رہا ان کے پاس کوئی وسائل نہیں وہ ایک او ایل ایکس کمپنی بن گئی ہے جو سب بیچ رہے ہیں۔ لہذا ہمیں ان وجوہات اور عوامی کو دیکھنا پڑے گا کہ کس وجہ سے پی آئی اے ان حالات کو پہنچی یعنی 2015 میں پی آئی اے کی نجکاری کا منصوبہ بنا لیا گیا اور اس کے بعد خسارہ در خسارہ ہوا ۔
انیوں نےکہا کہ اس کے لیے پرفارمنس آڈٹ ہونا چاہیے ،کہ کیا وجوہات رہیںاور کس کی کارکردگی خراب رہی ،کس طرح سے ایک چلتی ہوئی ایئر لائن خسارے کی نظر ہو گئی، اور اس کو خسارے سے کیوں نہیں نکالا گیا، 2015 سے اس کے خسارے کا عمل شروع ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کا ایک وزیر تھاجس نےہمارے ان پائلٹس ،جن کی دنیا مثال دیتی تھی ،ان کی کریڈیبلٹی پر سوال اٹھا دیا ،پی آئی اے کے روٹس بیچ دیے جب پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت آئی تو انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کے روٹس کو بڑھایا جائے اور اس کے روٹس کو شیئر کیا جائے ترکی کے ایئر لائنز کے ساتھ استنبول تک ہماری ایئر فلائٹس جائیں تاکہ ہم دنیا کے ہر کونے تک اپنے مسافروں کو پہنچا سکیں۔
مسلم لیگ نواز کے دور میں پی آئی اے کی جو بجٹ ایئر لائن کو ترکی کو لیز پر دے دیا گیا، آپ نے اپنے عملے کو ریٹرن کر کے بٹھا دیا ان کا عملہ بھی لے آئے ان کو ادائیگی بھی کی، اور یہاں سے پی آئی اے کے خسارے کا آغاز ہوا ،اور آج پی آئی اے کی بولی لگ رہی ہے، اور آپ کہتے ہیں کہ انٹرنیشنل بیڈرز آئیں گے وہ اس کو خریدیں گے، اس میں کوئی نئی روح ڈالیں گے ،
انہوں نے کہا کہ جب تک ہم اپنی پرفارمنس کا آڈٹ نہیں کریں گے تب تک آپ ذمہ داری عائد نہیں کریں گے ،آپ نے ایک ذہن بنا لیا کہ اپ نے بیچنا ہے آپ کے قرضے رول اور نہیں ہو رہے، آپ نےآئی ایم ایف کی کنڈیشنز پوری کرنی ہے ،آپ نے بولا کہ ہم نے آئی ایم ایف سے جو پیکج لینا ہے اس کے لیے پی آئی اے بیچنی ہے اور ادارے بیچنے ہیں۔
حال ہی میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی کےاجلاس میں سامنے آ یا کہ صرف پی آئی اے کی پرائیویٹائزیشن ایک ارب 99 کروڑ کے اخراجات ہو چکے ہیں۔
اور پی آئی اے کے انٹرنیشنل بڈرز نہ ملنے کے خبریں میڈیا پر پھیلنے سے متعلق اور اس کے اثرات سے متعلق انہوں نے کہا کہ بزنس مین کو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کس طرح سے ایئر لائن سے فائدہ حاصل کرنا ہے اور روٹس ان کے لیے کس قدر فائدہ مند ہے۔ اب یہ جو پرائیویٹ ایئر لائنز چل رہی ہیں فلائٹس آجا رہی ہیں وہ بہت زیادہ ہیں تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ صرف اپنے پاکستان کا نہیں چلا سکتے اب تو اپ ایسا کریں کہ بیورو کریسی کو پرائیویٹائز کر دیں جو اپنی پرفارمنس دکھانے اور ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یوٹیلٹی سٹور کے ملازمین سے متعلق بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ سب بیچ دو والی پالیسی ہے اب گھر کے اثاثے بیچتے جائیں تو اس سے کنگال ہی ہوں گے، پھر اس سے یہ ہوگا کہ آپ 200 بلین کی لائبلٹی بیچ رہے ہیں اور باقی 625 بلین کی لائبلٹی آپ ادا کریں گے۔