اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز)دنیا بھر میں ہر سال گنج پن سے متاثر افراد علاج کے لیے اربوں ڈالرز خرچ کردیتے ہیں اور کوئی بھی طریقہ علاج 100 فیصد مؤثر نہیں۔مگر اب ایک نئی دریافت سے گنج پن کا مؤثر طریقہ علاج تشکیل دینا ممکن ہوجائے گا۔درحقیقت ہمارے جسم میں ہی گنج پن کا مؤثر علاج چھپا ہوا ہے۔جی ہاں واقعی انسانی جسم میں پائے جانے والی ایک مخصوص شکر گنج پن کا علاج ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ دعویٰ ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آیا۔اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ یہ شکر بالوں کو دوبارہ اگانے میں گنج پن سے نجات کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات جتنی ہی مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔اس دریافت سے توقع پیدا ہوئی ہے کہ مردوں میں پائے جانے والے گنج پن کے عام مرض الوپ پیسا کا مؤثر علاج ممکن ہو سکے گا۔اس مرض میں عموماً سر کے درمیان سے بال غائب ہونے لگتے ہیں اور بتدریج یہ سلسلہ پورے سر تک پھیل جاتا ہے۔
برطانیہ کی Sheffield یونیورسٹی اور پاکستان کی COMSATS یونیورسٹی کے ماہرین نے 2 ڈوکسی ڈی ریبوس نامی قدرتی شکر کے تجربات چوہوں پر کیے۔ان تجربات کے دوران گنج پن کے شکار چوہوں کے بال دوبارہ اگنے لگے۔تحقیق کے مطابق یہ قدرتی شکر جانوروں اور انسانوں کے جسموں میں متعدد حیاتیاتی افعال میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔یہ تحقیقی ٹیم گزشتہ 8 سال سے اس قدرتی شکر پر کام کرکے یہ جاننے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس سے زخموں کے علاج کے دوران خون کی نئی شریانوں کی تشکیل میں کس حد تک مدد ملتی ہے۔
اس تحقیق کے دوران حادثاتی طور پر محققین نے دریافت کیا کہ اس سے بال تیزی سے اگنے لگتے ہیں۔اسی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے چوہوں پر تجربات کیے اور دریافت کیا کہ اس شکر کی معمولی مقدار کے استعمال خون کی نئی شریانیں بننے میں مدد ملتی ہے جس سے بال دوبارہ اگنے لگتے ہیں۔تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ شکر گنج پن سے نجات کے لیے ادویات جتنی ہی مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔محققین کا ماننا ہے کہ اس دریافت سے گنج پن سے نجات کا نیا اور قدرتی طریقہ مل گیا ہے
انہوں نے بتایا کہ مردوں میں گنج پن بہت زیادہ عام ہے جبکہ اس سے نجات کے لیے تیار کی گئی ادویات محدود اور مہنگی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں گنج پن کے شکار افراد کے علاج کے لیے محض 2 منظور کردہ ادویات دستیاب ہیں، مگر ہماری تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس عام مسئلے کا علاج بہت آسان ہے۔محققین کے مطابق اس شکر سے بالوں کی جڑوں تک خون کی فراہمی بڑھ جاتی ہے جس سے بال دوبارہ اگنے لگتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ابھی ابتدائی نتائج ہیں جو بہت حوصلہ افزا ہیں اور اس حوالے سے تحقیقی کام جاری رکھا جائے گا۔