اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) آج کل سوشل میڈیا صارفین کا ایک ہی گلہ ہے کہ کچھ سوشل میڈیا ایپلی کیشنز کام نہیں کر رہیں مگر پوسٹس بھی ہو رہی ہیں کسی بند ویب سائٹ یا ایپلی کیشن کو چلانے کا آسان طریقہ وی پی این کا استعمال ہے مگر کیا یہ وی پی این ڈیٹا سیکیورٹی کے لئے محفوظ بھی ہے یا نہیں ؟۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ پر کوئی سائٹ بند ہو یا سوشل میڈیا ایپلی کیشن نہ چل رہی ہو تو صارفین ایک آسان اور چور راستہ اختیار کرتے ہیں ، ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک یا وی پی این ایک ایسا سافٹ وئیر ہے جس کے ذریعے بند کی گئی ویب سائٹس تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے۔
وی پی این کی مدد سے صارفین کی آن لائن لوکیشن تبدیل ہو جاتی ہے ، آسان لفظوں میں کہا جائے تو صارف مین سرور کو بریچ کر کے انٹرنیٹ کی علیحدہ ٹنل استعمال کرتے ہوئے بلاک کی گئی ویب سائٹس تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔
ماہرین کے مطابق وی پی این آپکا مقام، جگہ تبدیل کردیتا ہے،جس سے آپ کسی بھی ویب سائٹ جو بلاک ہواس تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں، کہنے کو تو وی پی این بلاک کی گئی سائٹس اور سوشل میدیا نیٹ ورک تک رسائی دے دیتا ہے، مگر کسی بھی ادارے یا شخص کی ذاتی معلومات لیک ہونے کا سب سے زیادہ خدشہ رہتا ہے۔
فری لانسر اور آن لائن کاروبار سے وابستہ افراد بھی پاکستان میں جاری پابندیوں کے باعث متاثر ہوئے ہیں، ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر خرید و فروخت کرنیوالوں کا کہنا ہے کہ پابندیوں سے غیر ملکی زرمبادلہ میں کمی ہوئی ہے ، پاکستان میں پابندیوں کے بعد انٹرنیٹ اسپیڈ انتہائی سست ہے، وی پی این کی وجہ سے سوشل میڈیا ایپس سمیت آن لائن بزنسز کرنیوالےمتاثر ہوئے ہیں۔
وی پی این سروسز فراہم کرنے والی سوئس کمپنی کے مطابق پاکستان میں رواں سال وی پی این استعمال کرنے والوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اسکی اہم وجہ سوشل میڈیا سائٹس خصوسا ایکس کی بندش ہے۔ طلبہ اور آن لائن بزنس کرنے والے صارفین ڈیٹا سیکیورٹی خدشات سے قطع نظر اسے سہولت قرار دیتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ بارہ ماہ کے دوران پاکستان میں وی پی این کے استعمال میں چھ ہزار فیصد تک اضافہ ہوا ہے تاہم ماہرین کے مطابق غیر معیاری اور فری سروس فراہم کرنیوالے وی پی این آپکے موبائل ڈیوائس کو کمپرومائز کر سکتا ہے۔
دوسری جانب پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے وی پی این کے استعمال کو ریگولیٹ کرنے کے نئے منصوبے پر سوشل میڈیا صارفین تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ اس سے کچھ پلیٹ فارمز بشمول ایکس اور کچھ دیگر پورٹلز پر پابندی لگ سکتی ہے جو اس وقت پاکستان میں پہلے ہی محدود ہیں۔
اس بات کا انکشاف اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس کے دوران ہوا جب حکام مخصوص پراکسی نیٹ ورکس کو وائٹ لسٹ میں شامل کرنے اور دیگر کو بلاک کرنے پر غور کر رہے ہیں ۔ مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ایکس پر پابندی کے بعد وی پی این کے استعمال میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا ۔ وی پی این پر پابندی کے بعد ٹیلی کام اتھارٹی کا کہنا ہے کہ ملک میں ٹوئٹر صارفین کی تعداد میں زبردست کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
وی پی این پر پابندی لگانے کے اقدام سے کاروباری اداروں میں بھی خلل پڑے گا کیونکہ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ وی پی این پر پابندی لگانے سے آئی ٹی سیکٹر پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت وی پی این پر پابندی عائد کرنے کی منظوری دیتی ہے تو اس سے صارفین کی متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یا پاکستان کے اندر محدود مواد تک رسائی کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔
اس طرح کی پابندی انفرادی صارفین اور کاروباری اداروں دونوں کو متاثر کرسکتی ہے جو مواصلات اور مارکیٹنگ کے لئے سوشل میڈیا پر انحصار کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پہلی بار محرم میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس فعال ہے: عظمیٰ بخاری
خیال رہے کہ چند روز قبل پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلیے فائروال کی تنصیب کے سلسلے میں اہم پیش رفت سامنے آئی تھی ۔ اوور دی ٹاپ سروسز ریگولیٹ کرنے کیلئے فریم ورک پرکام شروع ہو چکا ہے اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی مکمل کر لی گئی تھی۔
ذرائع کے مطابق او ٹی ٹی ریگولیٹری فریم ورک،اتھارٹی سے منظوری کے بعد وفاقی کابینہ سے منظور کروایا جائے گا۔ نئے فریم ورک کے تحت واٹس ایپ، اسکائپ، فیس بک میسنجر، ایمو، وائبر سمیت مختلف فورمز کو لائسنس اور اتھرائزیشن لینا ہوگی۔
نئے فریم ورک کے تحت ٹویٹر، فیس بک، لِنکڈ اِن، آن لائن گیمنگ اور ای کامرس کو بھی ریگولیٹ کیا جائے گا۔میڈیا ڈیجیٹل سروسز کو بھی پی ٹی اے اور پیمرا مل کر ریگولیٹ کریں گے، کمیونیکیشن سروسز، ایپلی کیشن سروسز اور میڈیا سروسز کو الگ الگ کیٹیگری بنایا جائیگا۔
دستاویز کے مطابق کمیونیکیشن سروسزمیں واٹس ایپ، فیس بک میسنجر، ایمو، اسکائپ، وائبرسمیت تمام کمیونیکیشن پلیٹ فارم شامل ہوں گے۔
ایپلی کیشن سروسز میں فِیس بک، ایکس، ای سروسز، ای کامرس، گیمنگ اور لِنکڈ اِن جیسی سروسز شامل ہوں گی، نان براڈ کاسٹنگ سروسز میں یوٹیوب، نیٹ فلیکس، اسپاٹیفائی اور وی او ڈی جیسے فورمز شامل ہیں۔
براڈ کاسٹنگ سروس میں پاکستان میں چلنے والے چینلز کے سوشل میڈیا فورمز شامل ہیں۔تمام ریگولیشن فریم ورک پیکا ایکٹ 2016، پیمرا آرڈیننس 2002 اورپی ٹی اے ایکٹ 1996 کیتحت ترتیب دی جائیں گی۔
فریم ورک کے تحت تمام اسٹیک ہولڈرز اور کمپنیوں کو مقامی قوانین کے تحت کام کرنا ہوگا، فریم ورک منظوری کی صورت میں تمام پلیٹ فارمز کو 12ماہ کے اندراتھارٹی سے رجسٹریشن یا لائسنس لانا ہوگا۔