اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز)سپریم کورٹ آف آزاد جموں و کشمیر نے پرامن احتجاج اور امن عامہ سے متعلق آرڈیننس 2024 کا نفاذ معطل کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف 2 اپیلیں منظور کرلیں، جس نے متنازع قانون کو برقرار رکھا تھا۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس آرڈیننس کو مرکزی بار ایسوسی ایشن مظفر آباد اور آزاد کشمیر بار کونسل کے 3 ارکان نے آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
تاہم ہائی کورٹ نے ان درخواستوں کو مسترد کردیا تھا جس کے بعد درخواست گزاروں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ آف آزاد کشمیر میں درخواست دائر کردی تھی۔
درخواست گزاروں کے سینئر وکلا راجا سجاد احمد اور راجا امجد علی خان نے الزام عائد کیا کہ ہائی کورٹ نے آرڈیننس کی قانونی حیثیت سے متعلق اٹھائے گئے سوالات کو نظر انداز کیا۔
انہوں نے موقف اختیار کیا کہ مقننہ کو آزاد کشمیر کے عبوری آئین کے تحت ریاست کو فراہم کردہ بنیادی حقوق سے محروم کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے لہٰذا مذکورہ آرڈیننس آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
درخواست گزاروں کے وکلا کا کہنا تھا کہ موجودہ قوانین ان حقوق کے استعمال کو منظم کرنے کے لیے کافی ہیں، جس سے نیا آرڈیننس غیر ضروری ہو گیا ہے۔
آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس راجا سعید اکرم کی سربراہی میں فل کورٹ نے درخواست پر سماعت کی۔
فل کورٹ نے ابتدائی سماعت کے بعد صدارتی آرڈیننس کو معطل کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے حکومت کو آرڈیننس پر عملدرآمد سے روک دیا۔
سپریم کورٹ نے دونوں درخواستوں کو اپیلوں میں تبدیل کرتے ہوئے باقاعدہ ایک کیس کے طور پر جمع کیا اور کہا کہ اس حوالے سے تفصیلی فیصلہ کیس کی مزید سماعت کے بعد سنایا جائے گا۔
یاد رہے کہ صدارتی آرڈیننس کے تحت کسی بھی احتجاج اور جلسے سے قبل ڈی سی سے ایک ہفتہ قبل اجازت لینا ضروری تھا، اس کے علاوہ کسی غیر رجسٹرڈ جماعت یا تنظیم کو احتجاج کا حق حاصل نہیں تھا۔
ہڑتال کی کال برقرار
اس آرڈیننس کے خلاف جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے کے جے اے اے سی) کی جانب سے 5 دسمبر کو پہیہ جام ہڑتال کی کام دی گئی تھی تاہم ہڑتال کے اعلان کے 48 گھنٹوں کے اندر ہی یہ آرڈیننس معطل کردیا گیا۔
عوامی ایکشن کمیٹی کی کور کمیٹی کے رکن شوکت نواز میر نے سپریم کورٹ کی مداخلت کا خیر مقدم کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہڑتال اس وقت تک جاری رہے گی جب تک حکومت باضابطہ طور پر آرڈیننس کو منسوخ نہیں کرتی اور اس کی مخالفت کرنے پر حراست میں لیے گئے کارکنوں کو رہا نہیں کرتی۔